السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کوئی بیمارہواور طہارت حاصل کرنے سے معذورہو تو کیا وہ حصول طہارت کے لیے نماز کو مؤخرکردےیا اسی حالت میں نماز بروقت پڑھ لے؟قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری راہنمائی کریں اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مریض کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ طہارت سے معذوری کی وجہ سے نماز کووقت سے مؤخر کرے بلکہ اسے چاہیے کہ اپنی نیت کے مطابق جس قدر طہارت حاصل کر سکتا ہے، اسے پوراکر کے نماز بروقت ادا کرے خواہ اس کے بدن کپڑے یا جگہ پر نجاست لگی ہو جسے وہ دور نہیں کر سکتا، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم وَاسمَعوا وَأَطيعوا ...﴿١٦﴾... سورةالتغابن
’’جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو، اس کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو۔‘‘
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو اپنی استطاعت کے مطابق اس کی بجا آوری کرو۔‘‘[1]
اس بنیادی قاعدہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے معذور لوگوں سے ان کے عذر کے مطابق عبادات میں تخفیف کردی ہے تاکہ وہ حرج اور مشقت میں پڑے بغیر اللہ کی عبادت کو بجالائیں اس سلسلہ میں کچھ شرعی ہدایات حسب ذیل ہیں۔
1۔مریض کے لیے ضروری ہے کہ وہ پانی کے ساتھ طہارت حاصل کرے خواہ وہ وضو کی شکل میں ہو یا غسل کرنے کی صورت میں، اگر پانی سے طہارت کرنے سے عاجز ہو یا پانی کے استعمال سے مرض میں اضافے کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کرے ، اگر وہ وضو یا تیمم نہ کر سکتا ہو تو کوئی بھی دوسرا شخص اسے وضو یا تیمم کرا سکتا ہے۔
2۔اگر کسی جگہ زخم ہو تو وہاں مسح بھی کیا جا سکتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ مریض اپنے ہاتھ کو پانی سے ترکرے اور اس گیلے ہاتھ کو زخم پر پھیردےاگر ایسا کرنا نقصان دہ ہوتواس زخم پر بھی تیمم کرے۔اگر زخم پر پٹی بندھی ہے تو اسے دھونے کے بجائے پانی کے ساتھ مسح کر لیا جائے وہاں تیمم کی ضرورت نہیں کیونکہ عضو کو دھونے کے بجائے وہاں مسح کیا جاسکتاہے۔
[1] ۔صحیح بخاری،الاعتصام:7288۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب