سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(22) شرم گاہ کو چھونے سے وضو کا ٹوٹنا

  • 19671
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3372

سوال

(22) شرم گاہ کو چھونے سے وضو کا ٹوٹنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وضو کرنے کے بعد اگر آدمی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے تو کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے نیز کیا عورت کے لیے بھی یہی حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر آدمی نے وضو کیا ہے تو اس کے بعد اس کا ہاتھ شرمگاہ کو لگ جاتا ہے تو اس سے وضو برقرار نہیں رہے گابلکہ اسے نیا وضو کرنا ہوگا۔چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:جس شخص نے اپنی شرم گاہ کو چھوااسے چاہیے کہ وضو کرے۔[1]

ناقص وضو کے اس حکم میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔چنانچہ ایک دوسری حدیث میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔’’جو کوئی مرد اپنی شرمگاہ کو چھوئے اسے چاہیےکہ وضو کرے اور جو کوئی عورت اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ بھی وضو کرے۔‘‘[2]

لغت کے اعتبار سے لفظ فرج قُبل اور دُبر دونوں کو شامل ہے۔ البتہ ایک دوسری حدیث بظاہر اس کے معارض معلوم ہوتی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  !ایسے شخص کے متعلق آپ کا خیال ہے جس نے وضو کرنے کے بعد اپنی شرمگاہ کو چھولیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’وہ تو صرف اس کے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘ [3]

محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ  نے ان احادیث کے درمیان تطبیق بایں طور پر بیان کی ہے کہ شرمگاہ کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے بشرطیکہ ہاتھ اور شرمگاہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو بلکہ براہ راست چھوا جائے۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جو شخص اپنی شرمگاہ کو کسی پردے کے بغیر چھوئے تو اس پر وضو واجب ہے۔‘‘[4]

بہر حال وضو کے بعد اگر کوئی مرد یا عورت کسی قسم کی رکاوٹ کے بغیر شرمگاہ کو چھوئےتو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ہاں اگر درمیان میں کوئی پردہ حائل ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔(واللہ اعلم)


[1] ۔ابو داؤدالطہارۃ:181۔

[2] ۔مسند امام احمد،ص223ج۔2۔

[3] ۔ابن ماجہ ،الطہارۃ:483۔

[4] ۔مسند امام احمد،ص:333ج۔2۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:54

محدث فتویٰ

تبصرے