السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رضا ورائٹی ہاؤس لاہور کی طرف سے ایک کارڈشائع کیا گیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی 6عدد تصاویر ہیں۔کیا یہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر ہیں؟ان کے نیچے کچھ فضائل درج کیے گئے ہیں۔ ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ان تصاویرہیں۔کے اوپر اور نیچے " صلی اللہ علیہ وسلم "کے الفاظ درج ہیں،کیا یہ درود کی بےادبی اور گستاخی نہیں ہے؟کیا ایسے کارڈ پر کوئی دعوت نامہ بنواکر تقسیم کرنا اور اس کا رڈ کو عام کرنا درست ہے؟ایک عالم دین نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور وہ اسے کارثواب خیال کرتے ہیں،قرآن و حدیث کے مطابق اس کی حیثیت واضح کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ،عصاء،پیالہ،انگوٹھی اور ان تمام چیزوں کا بیان جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے خلفاءنے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ،اسی طرح آپ کے موئے مبارک نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں۔‘‘ [1] اس کے بعد آپ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ انھوں نے بالوں کے بغیر چمڑے کی دوپرانی جوتیاں پیش کیں جن پر دوپٹیاں تھیں۔پھر فرمایاکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک ہیں۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جوتے کی بناوٹ موجودہ دور کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی تھی اس میں چمڑےکا ایک ٹکڑا انگلیوں کے درمیان ہوتا تھا، اس کا ایک سراجوتی کے تلے میں اور دوسرا زمام سے بندھا ہوتا تھا،اس زمام کو قبال بھی کہتے ہیں،ایک جوتے میں دو پٹیاں(قبال)ہوتیں اور ہر قبال چمڑے کے دوتسموں پر مشتمل تھا،چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی دوپٹیاں تھیں جن کے تسمے دہرے ہوتے تھے۔[3]
اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے، چنانچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں یا جرابوں پر مسح کرتے وقت اپنے پاؤں جوتوں سے نہیں نکالتے تھے بلکہ جوتوں سمیت مسح کر لیتے تھے۔[4]بلکہ جوتے اتارے بغیر پاؤں بھی دھو لیتے تھے۔[5]
ان احادیث سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر آپ کا جوتا ہمارے ہاں ہوائی چپل کی طرح ہوتا تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نبوت23سال پر محیط ہے، اس دوران آپ نے کئی جوتے استعمال کیے ہوں گے، چنانچہ احادیث میں مختلف جوتوں کی تفصیل ملتی ہے، لیکن جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہ یہی ہے جو ہوائی چپل کی طرح تھا چنانچہ حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےحضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کیسے تھے تو انھوں نے ایک پرانا جوتا نکال کر دکھایا جس کے اوپر دو پٹیاں تھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوتے ہیں۔[6]بعض روایات میں ہے کہ وہ گائے کے چمڑے کے تھے اور انھیں پیوند لگاہوا تھا۔[7]ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دوران نماز اتاردیا۔اسلام پھیرنے کے بعد کے بعد فرمایا کہ مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نےدوران نماز بتایا کہ انہیں گندگی لگی ہوئی ہے لہٰذا میں نے انہیں اتاردیا۔[8]
بہرحال یہ نعلین سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھے اور انھیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا ،بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر کے آخری حصہ میں دمشق چلے گئے تھے،وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاء بہت کم تعداد میں موجود تھیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عنوان میں جن ذاتی اشیاء کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ ،عصا،تلوار،پیالہ، انگوٹھی،موئےمبارک نعلین اور چند ایک برتن ،پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کاذکرہے پہلی میں انگوٹھی دوسری میں نعلین ،تیسری میں چادرچوتھی میں پیالہ ،پانچویں میں تلوار،باقی اشیاءیعنی زرہ موئے مبارک چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں،ہمارےنزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاء اور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حال کرنا شرعاًجائز ہے۔ لیکن اس تبرک کے لیے دو شرائط ہیں۔
تبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو،جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔
جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہواسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثار میں سے کوئی شے حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ لیکن ہم یہ بات بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے آثار شریفہ اور تبرکات معدوم ہوگئے یا جنگوں اور فتنوں کی نذرہو کر ضائع ہو گئے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوا ہے۔
(الف)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوارکھی تھی۔جسے آپ پہنتے تھے۔آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے استعمال کیا۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی بالآخر بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔[9]
(ب)عباسی دورکے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداءمبارک اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کرتے تھے۔ہنگاموں میں ضائع ہو گیں۔یہ سن656ءکے واقعات ہیں۔
(ج)دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک بھی نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔
(د)آپ کے آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی تھی اس نے وصیت کردی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کردیا جائے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر تیار کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی۔آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے زیب تن فرمایا۔لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ آپ کا کفن ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی۔ بالآخر وہ چادر ان کا کفن بنی۔[10]
اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کو پہنایاگیا۔ جسے بطور کفن اس کے ساتھ ہی قبر میں دفن کردیا گیا۔[11]
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چند موئے مبارک تھے۔آپ نے ان کے متعلق وصیت کردی تھی کہ انھیں قبر میں ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے۔چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔[12]
ان حقائق کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں ،بالوں اور نعلین میں سے کچھ باقی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت کر سکے کہ فلاں چیز واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کردہ ہے۔پھر جب صورت حال یہ ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر کہاں سے بر آمد کی گئی ہیں؟یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاء بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا بہت بڑی خوش قسمتی اور باعث عزت ہے لیکن لوگ جن اشیاء کی تصاویر کےکارڈ لیے پھرتے ہیں اور ان کی اشاعت بابرکت خیال کرتے ہیں۔پھر ان تصاویر کواپنے سینہ اور پگڑی پر آویزاں کرتے ہیں۔ ان تصاویر کے متعلق لوگوں کو بتایا جا تا ہے کہ اسے گھر دکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے۔ تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں۔تصویررکھ کر اس کا بوسہ لیا جائے تاکہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ہمیں سوال کے ہمراہ جو کارڈموصول ہوا ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارکین کے چھ عدد تصاویر ہیں۔اس کا عنوان یہ ہے "نقش نعلین مبارک سلطان دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم "۔
پھر اس نقش نعل کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والے کو مندرجہ ذیل برکات حاصل ہوں گی۔
1۔سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی۔
2۔اس کو اپنے پاس رکھنے سے شیطان کے شر سے حفاظت ہوگی۔
3۔اس کو آنکھوں پر رکھنے سے امراض چشم سے نجات حاصل ہو گی۔
4۔گنبد خضراء کی حاضری نصیب ہوگی۔
5۔اس کو اپنے پاس رکھنے سے ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل ہوگی۔
6۔اس کے واسطہ سے دعا مانگی جائے تو پوری ہوگی۔
7۔ہرقسم کے جادو ٹونے سے حفاظت ہوگی۔
8۔اس کو اپنے پاس رکھنے سے ہر حاسد کے حسد و نظر بد سے حفاظت ہو گی۔
9۔جس کشتی میں ہو وہ نہ ڈوبے اور جس گھر میں ہو چوری سے محفوظ رہے۔
ہمارے نزدیک نقش نعلین کے مذکورہ فضائل و مناقب خود ساختہ اور بناوٹی ہیں۔ احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نعلین کےکے نگران تھے۔ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے۔بلکہ ہمارے نزدیک یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں۔خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے۔ اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔بہر حال ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش کی تصویر بنانے میں چنداں حرج نہیں،اگر کوئی محبت کے پیش نظر ایسا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے۔بشرطیکہ پاپوش کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو۔لیکن اس نقش سے برکت حاصل کرنا اور اسے باعث فضیلت قراردینا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔البتہ اصلی پاپوش مبارک اگر کہیں موجود ہے تو اس میں خیروبرکت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے جو انہیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے عنایت فرمائے تھے۔ آپ بالوں کو بوسہ دیتے ۔آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگوکر شفا کے طورپر اس پانی کو نوش کرتے ۔ جن دنوں آپ پر آزمائس آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوتے تھے۔ بعض لوگوں نے آپ کی آستین سے موئے مبارک نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے۔[13]
آخر میں ہم اس امرکی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پرآپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا اور آپ کے لعاب دھن کو اپنے چہروں اور جسموں پرملا۔آپ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ ایسا کرنا جنگی حالت کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا۔ مقصد یہ تھا کہ قریش کو ڈرایا جائےاور ان کے سامنے اس اس بات کا اظہار کیا جائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر و رہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے؟انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت ہے؟وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں؟ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے چھپا یا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں اور لطیف اسلوب کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی جو اس قسم کے تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہترہیں۔مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہماری مکمل رہنمائی کرتی ہے۔
ابو قراء سلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا۔ آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے آپ کے وضوکے پانی کو اپنے جسموں پرملنا شروع کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ"تم ایسا کیوں کرتے ہو۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کےپیش نظر ایسا کرتے ہیں۔آپ نے فرمایا:’’جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرے تو اسے چاہیے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے۔اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔‘‘ [14]
مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائےتو اس دنیا و آخرت کی خیروبرکات سے ہم مشرف ہوں گے۔اب ہم سوالات کے مختصر جوابات دیتے ہیں۔
1۔کارڈ پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاپوش مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔
2۔اس میں جو فضائل و مناقب درج کیے گئے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں۔بلکہ یہ خود ساختہ ہیں۔ ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے۔
3۔تصاویر کے اوپر نیچے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھاگیا بلکہ"سلطان دوجہاں"کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا ہے ۔ کوئی بھی صاحب شعورجوتوں کے اوپر یا نیچے صلی اللہ علیہ وسلم لکھنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔
4۔ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے۔
5۔جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔کتاب فرض الخمس ،باب نمبر5۔
[2] ۔صحیح بخاری ،فرض الخمس:7013۔
[3] ۔ابن ماجہ، اللباس:3614۔
[4] ۔سنن ابن ماجہ ،الطہارۃ:559۔
[5] ۔صحیح بخاری،الوضو:166۔
[6] صحیح بخاری ،اللباس:5858۔
[7] ۔مسند امام احمد،ص:6۔ج5۔
[8] ۔مستدرک حاکم ،ص:26،ج1۔
[9] ۔صحیح بخاری اللباس:5879۔
[10] ۔صحیح بخاری،الجنائز :1277۔
[11] ۔صحیح بخاری،الجنائز :127۔
[12] ۔سیراعلام النبلاء۔ص:337۔ج11۔
[13] ۔سیراعلام النبلاء،ص:259،ج11۔
[14] ۔الاحادیث الصحیحہ ،رقم :2998۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب