سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(08) قادیانیوں سے تعلقات رکھنا

  • 19657
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1521

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارا دین اسلام شروع ہی سے مختلف فتنوں کا شکار رہا ہے، ان سب فتنوں سے زیادہ خطرناک فتنہ قادنیت ہے قادیانی دن رات اہل اسلام کا ایمان لوٹنے میں مصروف ہیں۔یہ لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں پوری دنیا میں دھوکہ دہی ،وجل و فریب سے کام لے کرسادہ لوح مسلمانوں کو مرتد بنا رہے ہیں۔ ایسے گمراہ اور دین دشمن ٹولے کے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟اور ان سے کس قسم کا سلوک کیا جائے ؟ ان سے مکمل بائیکاٹ کرنے کی اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے؟امید ہے اس سلسلہ میں آپ ہماری ضرور راہنمائی فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور دین اسلام کی سر بلندی کے لیے ہم سب کی خدمت کو ثمرآور کرے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے حضرت انبیاء علیہ السلام کا سلسلہ حضرت آدم  علیہ السلام  سے شروع فرمایااور آخر الزمان رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پر اس سلسلہ کو ختم کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نہ ہی وحی کا سلسلہ جاری ہو گا۔ چنانچہ ختم نبوت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد وحی کے انقطاع کا مسئلہ ایسا ہے جس پر تمام امت  کا اجماع ہو چکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ... ﴿٤٠﴾... سورة الاحزاب

’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )تم میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔‘‘

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسئلہ ختم نبوت بہترین پیرایہ میں بیان فرمایا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’میری اور دیگر انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک مکان تعمیر کیا اور اسے نہایت خوبصورت بنایا،مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑدی۔لوگ چاروں طرف سے اس عمارت کو دیکھتے ہیں اور اسے پسند کرتے ہیں مگر کہتے ہیں کہ تم نے اس جگہ ایک اینٹ مزید کیوں نہ رکھ دی، چنانچہ میں وہ اینٹ ہوں،اور میں خاتم النبیین ہوں۔‘‘[2]

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ہی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’بنی اسرائیل کی قیادت حضرات انبیاء علیہ السلام  کے ہاتھ میں تھی ، جب ایک نبی  علیہ السلام  فوت ہو جاتا تو اس جگہ دوسرا نبی آجاتا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، البتہ میرے بعد بکثرت خلفاء ہوں گے۔‘‘[3]

حدیث دجال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’میں خاتم النبیین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘ [4] 

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سید نا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے فرمایا:’’ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمھارا میرے لیے وہی درجہ ہو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام  کے لیے یارون  علیہ السلام  کاتھا ۔ سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘[5]

ان احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد ہر مدعی نبوت کافراوردین سے خارج ہے۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن ہیں انہیں دیکھ کر میں بہت پریشان ہو گیا، خواب میں مجھے حکم دیا گیا کہ ان پر پھونک مارو۔میں نے جب ان پر پھونک ماری تو دونوں رفو چکر ہو گئے ۔میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ میرے بعد دو جھوٹے شخص پیغمبری کا دعویٰ کریں گے ان میں سے ایک اسود عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ کذاب۔‘‘[6]

اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں مسیلمہ کذاب مدینہ طیبہ آیا اور کہنے لگا:اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے بعد مجھے جانشین بنادیں تو ان کی فرمانبرداری کرنے کو تیار ہوں،مسیلمہ کذاب اپنے ساتھ بہت سے لوگوں کو بھی لایا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس اس وقت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  تھے۔اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔آپ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:’’اگر تم مجھ سے یہ چھڑی بھی مانگو تو میں نہیں دوں گا۔جانشینی تو دور کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے تیری تقدیر میں جو  لکھ دیا ہے تو اس سے نہیں بچ سکے گا اور اگر تو رو گردانی کرے گا تو اللہ تجھے تباہ کردے گا اور میں تو سمجھتا ہوں کہ تو وہی دشمن ہے جس کا حال مجھے اللہ تعالیٰ نے خواب میں دیکھا یا ہے۔‘‘[7]

بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیشین گوئی کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’عنقریب میرےبعد تیس کذاب پیدا ہوں گے۔سب کے سب اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کریں گے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘[8]

ہمارے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی ایک جھوٹا مدعی نبوت ہے اور ان احادیث کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرےیا کسی مدعی نبوت کی تصدیق کرے وہ کافر اور دین اسلام سے خارج ہے،کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع امت کی تکذیب کی ہے۔ واضح رہے کہ مرزا احمد قادیانی دعوت نبوت سے پہلے ختم نبوت کا قائل تھا اور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کو کافر سمجھتا تھا۔ جیسا کہ اس نے لکھا ہے۔’’بھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد نبی آئے تو کیسے آئے جب کہ آپ کی وفات کے بعد وحی بند ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ نبیوں کو ختم کردیا ہے۔‘‘[9]

ایک دوسرے مقام پر لکھتا :’’مجھے یہ بات زیبانہیں کہ میں نبوت کا دعویٰ کرکےاسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں سے جاملوں۔‘‘[10]

مرزاقادیانی کی مصنوعی نبوت کے کئی ایک مراحل ہیں۔ سب سے پہلے اس نے مجددہونے کا دعوی کیا۔ اس کے بعد مثیل مسیح اور پھر مسیح موعودہونے کا دعویٰ کردیا۔ بلکہ بذریعہ کشف والہام اس نے حضرت عیسیٰ  علیہ السلام  کی قبر کی کشمیر میں نشاندہی بھی کردی۔ اس کے بعد کھل کر اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور باور کرایاکہ مجھ پر وحی آتی ہے اور(نعوذ باللہ ) میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ جب اس پر علماء حقہ نے گرفت کی تو کہنے لگا میں کوئی مستقل نبی یا صاحب شریعت رسول نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وجہ سے نبی ہوا ہوں اور آپ ہی کا ظل اور بروز ہوں یعنی میں ظلی اور بروزی نبی ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بتدریج نبوت کے مراحل طے کیے ہیں ۔ پہلے مجدد پھر مثیل مسیح اور پھر مسیح موعود ، جب کام چلتا دیکھا تونبوت کا دعویٰ کردیا۔اگر غورکیا جائے تو اس کی تدریجی نبوت ہی اس کے ابطال دعویٰ نبوت کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ سابقہ انبیاء علیہ السلام میں سے کوئی نبی بھی بتدریج نبی نہیں بنایا۔ اس دعویٰ نبوت کی تردید کے لیے درج ذیل باتیں قابل غور ہیں۔

1۔اس نے دعویٰ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کرتے ہوئے اسے ظلی نبوت کا درجہ حاصل ہوا ہے گویا اس کے نزدیک نبوت وھبی نہیں بلکہ کسبی  ہے۔ جب کہ قرآن کریم نے اس نظریہ کی بھرپور تردیدکی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿ اللَّهُ أَعلَمُ حَيثُ يَجعَلُ رِسالَتَهُ ...﴿١٢٤﴾... سورة الانعام

’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کاکام کس سے لے۔‘‘

علاوہ ازیں اگر نبوت کسبی چیز ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حقدار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کامل اتباع سے سر شار تھے۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  شاعر نہ تھے اور نہ ہی شاعری آپ کے شایان شان تھی لیکن مرزاقادیانی شاعر تھا اس نے اردو ،عربی اور فارسی میں بہت سے اشعاراور قصیدے لکھے۔اگر مرزاقادیانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کاظل اور بروزہے تو آپ تو شاعرنہ تھے یہ عکس میں شاعری کہاں سے آگئی؟ اس کا مطلب ہے مرزاقادیانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عکس قطعاً نہیں ہے۔

3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ آپ فحش گواور بدزبان نہیں تھے جبکہ مرزاقادیانی انتہائی بد زبان اور فحش گوتھا بلکہ اس نے نہ صرف اپنے مخالفین کو ولد الزنا اور ولد الحرام کہا ہے بلکہ اس نے آئینہ کمالات میں لکھا ہے۔’’جن لوگوں نے میری تصدیق نہیں کی وہ سب کنجریوں کی اولاد ہیں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے مخالفین کے حق میں قطعاًایسی زبان استعمال نہیں کی ہے اس بنا پر مرزاقادیانی قطعی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عکس نہیں ہے۔

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی زندگی میں جہاد کیا اور سترہ غزوات میں خود شریک ہوئے اور یہ بھی فرمایا کہ یہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ لیکن مرزاقادیانی نے جہاد کی مخالفت کا فتوی جاری کیا ۔کیا ایسا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عکس ہو سکتا ہے؟ہر گز نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کو مٹانے کے لیے دن رات ایک کیا۔ ہمارے نزدیک مرزاقادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا۔ جس نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی اور جہاد کو حرام قراردیا بلکہ اس نے دیگر تمام مسلمانوں کو کافر قراردیا۔ یہی وجہ ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح جب فوت ہوئے تو مشہور قادیانی ظفر اللہ خاں نے ان کے جنازہمیں شرکت نہ کی۔اس کے جھوٹا ہونے کے لیے درج ذیل دو واقعات قابل غور ہیں۔

1۔مرزاقادیانی نے اپنی زندگی میں پیشین گوئی کی تھی کہ اس کانکاح محمدی بیگم سے ہوگا لیکن ہوایوں کہ محمدی بیگم کے سر پرست جو مرزاقادیانی کی برادری سے تھے۔انھوں نے رشتہ دینے سے صاف انکار کردیا اور محمدی بیگم کا نکاح کسی دوسری جگہ کردیا اور مرزاقادیانی اس سے نکاح کی حسرت دل میں لیے ہوئے اگلے جہاں روانہ ہوا۔

2۔مرزاقادیانی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم سے مباہلہ کیا کہ اگر میں جھوٹا اور مفتری ہوں تو میں ثناء اللہ کی زندگی میں ہلاک  ہوجاؤں ۔ چنانچہ وہ اس مباہلہ کے تیرہ ماہ بعد ہیضہ کی بیماری سے لاہور میں مراجب کہ مولانا ثناءاللہ امرتسری  رحمۃ اللہ علیہ  اللہ کے فضل و کرم سے مرزاقادیانی کی وفات کے چالیس سال بعد تک زندہ رہے اور مارچ 1948ءمیں سرگودھا میں وفات پائی۔ یہی وہ حقائق تھے جن کی بناء پر حکومت پاکستان نے 1974ءمیں قادیانیوں کوغیر مسلم قراردیا۔


[1] ۔صحیح بخاری،المناقب:3535۔

[2] ۔صحیح بخاری ،احادیث الانبیاء3455۔

[3] ۔مسند امام احمد،ص:338۔ج3۔

[4] ۔ابن ماجہ ،السنۃ:121۔

[5] ۔صحیح بخاری ،المغازی:4379۔

[6] ۔صحیح بخاری المناقب :3620۔

[7] ۔ابو داؤد،الفتن:2524۔

[8] ۔حمامۃالبشری،ص:20

[9] ۔حمامۃالبشری،ص:97۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:36

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ