سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(07) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پر اُمت کا احتجاج کرنا

  • 19656
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1819

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ڈنمارک وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخانہ خا کے شائع ہوئے ہیں۔ردعمل کے طور پر دنیا بھر میں مسلمان ان توہین آمیز کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔اور عملاً احتجاج روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں ہمارے لیے کیا ہدایات ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا جزو ایمان ہے، علمائے اسلام دور صحابہ سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جس شخص کو پیار اور تعلق خاطر نہیں وہ سرے سے مومن ہی نہیں ہے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے والاآخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنے کے علاوہ اس دنیا میں بھی قابل گردن زنی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ۔جب میری ذات اسے اس کے والدین اولاد حتیٰ کہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔‘‘[1]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے۔"اس کے برعکس ہر وہ قول و عمل اور عقیدہ نواقض ایمان سے ہے جو رسالت اور صاحب رسالت  صلی اللہ علیہ وسلم  سے بغض اور ان کے متعلق طعن و تشنیع پر مشتمل ہو کیونکہ اس سے کلمہ شہادت کے دوسرے جزو کا انکار لازم آتا ہے اور ایسا کرنے سے وہ گواہی کالعدم ہوجاتی ہے جس کے ذریعےانسان اسلام میں داخل ہوا تھا ہمارے نزدیک اس انکاروتنقیص کو دوحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات مقررہ صفات کو ہدف تنقید بنانا۔

2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعت کے کسی حصہ کاانکار یا اس پر طعن کرنا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات کو ہدف تنقید بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی صداقت و امانت اور عفت و عصمت کے متعلق حرف گیری کرنا یا آپ کی ذات عالی صفات کے ساتھ کسی بھی پہلو سے استہزاء وتمسخرکرنا،یا آپ کو گالی دینا اور آپ کو برابھلا کہنا۔ الغرض آپ کی شخصیت پر کسی بھی پہلو سے اعتراض کرنا اس میں شامل ہے۔ لیکن اہل مغرب نے یہودی لابی اور امریکی استعمار کے اشارہ پر اسلام اور اہل اسلام کے خلاف مذموم تہذیبی جنگ شروع کر رکھی ہے، اس سلسلہ میں انھوں نے تہذیب و شائستگی کی تمام حدود کو پامال کر رکھا ہے، پہلے قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے پوری امت مسلمہ کے جذبات کو مجروح کیا۔اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے مذموم خاکے اور کارٹون شائع کرنے کی شرمناک حرکت کر ڈالی ہے، ان توہین آمیز خاکوں میں کئی چیزیں ایسی ہیں جن سے مسلمانوں کا اشتعال میں آنا لابدی امر ہے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس بارے میں جو اتفاق رائے سامنے آیا ہے ۔اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔پھر ان خاکوں کی مذمت کرنے والے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والےبھی ان کے ہم آواز ہیں۔حتیٰ کہ دین و مذہب سے بالا،آزاد خیال مگر سنجیدہ فکر کے لوگ بھی ان خاکوں کی مذمت کر رہے ہیں۔

کتاب و سنت کی روسے حضرات انبیاء علیہ السلام  کی تصویر کشی کرنا ان کے مجسمے بنانا بذات خود خلاف شرع ہے خواہ اس تصویر یا مجسمے میں اہانت یا رسوائی کا کوئی پہلو نہ بھی پایا جا تا ہو۔ انبیاء کرام  علیہ السلام کی مبارک صورتوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص وقار عطا فرمایا ہےاور شیطان کو بھی اس امر پر قدرت نہیں دی کہ وہ ان شخصیات کی صورت اختیار کر سکے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔

’’جو شخص خواب میں میری زیارت سے مشرف ہوا۔اس نے مجھے ہی دیکھاکیونکہ شیطان میری صورت اختیار کرنے پر قادر نہیں۔‘‘ [2] 

قرآن و سنت کی روشنی میں توہین رسالت کا جرم معمولی نوعیت کا نہیں ہے کہ اس سے چشم پوشی کی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

﴿إِنَّ الَّذينَ يُؤذونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِى الدُّنيا وَالءاخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُم عَذابًا مُهينًا ﴿٥٧﴾... سورةالاحزاب

’’بلاشبہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں اللہ کی طرف سے لعنت ہے اور قیامت کے دن ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کیا جائے گا۔‘‘

غزوہ تبوک کے سفر میں منافقین نے آپس میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا۔کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان میں گستاخی کرتے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع مل جاتی ، جب آپ ان سے جواب طلبی فرماتے تو کہتے کہ ہم تو صرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ہنسی مذاق کر رہے ہیں ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دل بہلانے کے لیے صرف ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات و عالی صفات کو ملوث کیا جائے ۔ کسی دوسری چیز سے تمھاری دل لگی نہیں ہوتی ۔قرآن کے الفاظ یہ ہیں۔

﴿وَلَئِن سَأَلتَهُم لَيَقولُنَّ إِنَّما كُنّا نَخوضُ وَنَلعَبُ قُل أَبِاللَّهِ وَءايـٰتِهِ وَرَسولِهِ كُنتُم تَستَهزِءونَ ﴿٦٥ لا تَعتَذِروا قَد كَفَرتُم بَعدَ إيمـٰنِكُم ... ﴿٦٦﴾... سورةالتوبة

’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں(کہ کیا تم ایسی باتیں کرتے ہو)تو کہیں گے ہم صرف مذاق اور دل لگی کر رہے تھے ۔آپ کہہ دیں کیا تمھاری ہنسی اور دل لگی اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟بہانے نہ بناؤتم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔‘‘

اس نص صریح سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اور دیگر شعائر اسلام کو اپنے مذاق کا موضوع بنانا بہت خطرناک عمل ہے۔اس راستہ پر چل کر انسان براہ راست کفر تک پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ کتب حدیث میں متعدد ایسے واقعات مروی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخی کے مرتکب کو فوراً جہنم واصل کردیا گیا اور اسے کیفرکردار تک پہنچانے والے سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی،اس سلسلہ میں چند واقعات حسب ذیل ہیں۔

1۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین کیا کرتی تھی ۔اسے ایک شخص نے موقع پا کر قتل کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کے خون کا بدلہ ، قصاص یادیت کسی بھی صورت میں نہیں دلوایا۔[5]

2۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اس واقعہ کی تفصیل بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں ایک نابینا شخص تھے،اس کی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کی ذات کے متعلق حرف گیری کرتی تھی ،اس کا مالک نابیناشخص اسے منع کرتا اور سختی سے روکتاتھا۔لیکن وہ اپنی ضد اور ہٹ دھری پر قائم رہتی ایک رات ایسا ہوا کہ وہ حسب عادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو گالیاں دینے لگی اور آپ کو برابھلا کہنا شروع کردیا تو اس غیرت مند نابینا شخص نے گھر میں پڑی ہوئی کدال اٹھائی اور اسے اس گستاخ لونڈی کے پیٹ پر رکھ کر اوپرسے دباؤ ڈالا ۔جس سے اس کا پیٹ پھٹ گیا اور وہ مرگئی۔صبح کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا:’’میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ رات جو واقعہ ہواہے ۔اس کا مرتکب سامنے آجائے۔‘‘وہ نابینا شخص کھڑا ہوا اور ہانپتا گرتا پڑتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  !میں نے اسے قتل کیاہے۔اس قتل کی وجہ یہ تھی کہ یہ لونڈی آپ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ کو برا بھلا کہتی تھی۔میرے بار بار کہنے پر باز نہیں آتی تھی۔ اس کے بطن سے میرے موتیوں جیسے دو خوبصورت بیٹے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ آج رات اس نے پھر وہی نازیبا حرکت کر ڈالی ۔مجھے غیرت آئی اور میں نے اسے قتل کر ڈالا۔واقعہ سننے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’تم سب گواہ رہو۔اس گستاخ لونڈی کا قتل ضائع اور خون رائیگاں ہے، اس کا کوئی بدلہ نہیں دیا جائےگا۔‘‘[6]

3۔حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا یہی موقف تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی کرنے والے کی سزا قتل ہے اور اس کا خون ضائع ہے۔ چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مجلس میں تھے ۔کسی بات پر آپ کو ایک شخص کے متعلق غصہ آیا۔ پھر آپ کا غصہ زیادہ ہونے لگا،میں نے عرض کیا۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو اسے قتل کردوں؟جب میں نے اسے قتل کرنے کا عندیہ دیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے مجلس کو برخاست کردیا۔ جب لوگ منتشر ہو گئے تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت تونے کیا کہا تھا؟جبکہ میرے ذہن سے یہ واقعہ محو ہو چکا تھا۔ ان کے یاددلانے پر مجھے یاد آیا آپ نے فرمایا کہ واقعی تونے اسے قتل کردینا تھا؟ میں نے عرض کیا اگر آپ مجھے اجازت دیتے تو میں نے اسے ضرورقتل کردیناتھا آپ اگر اب بھی مجھے حکم دیں تو اسے کیفرکردار تک پہنچاسکتا ہوں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایایہ منصب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حق میں گستاخی کرنے والے کو قتل کردیا جائے۔آپ کے بعد کسی اور کے لیے نہیں ہے۔[7]

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ہاں یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گستاخی کرنا ایک ایسا جرم ہے۔کہ اس کے مرتکب کو قرارواقعی سزادی جائے اور اسے فوراًکیفرکردار تک پہنچایا جائے۔چنانچہ کعب بن اشرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کےخلاف توہین آمیز اشعارکہتا تھا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایااس کعب یہودی کوکون قتل کرے گا؟حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  !اس کام کو میں خود سر انجام دوں گا۔چنانچہ اسے قتل کردیا گیا جس کی تفصیل بخاری میں ہے۔[8]

4۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے متعلق بھی روایات میں ہے کہ انھوں نے بھی اپنے ایک غلام کو قتل کرادیا تھا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے خلاف گستاخی کا ارتکاب کرتا تھا۔[9]اسلام نے یہ اعزاز صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ بلکہ ناموس رسالت کے اس تحفظ میں تمام انبیاء کرام کو بھی شامل کیا ہے، ایک طرف مسلمانوں کو ہر قوم کی مقدس شخصیات اور شعائر کے احترام کا درس دیا اور دوسری طرف تمام انبیاء کرام علیہ السلام  کا یہ حق بنادیا کہ ان کی شان میں توہین کرنے والوں کو زندگی کے حق سے محروم کردیا جائے۔اس سلسلہ میں امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب الصارم المسلول میں تفصیلی بحث کی ہے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ناموس رسالت کی حفاظت کا یہ حق دیگرانبیاء کرام علیہ السلام  کو بھی ہے جو شخص بھی ان کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کرے گا۔اس کو بھی شدید سزا کا سامان کرنا ہوگا۔انھوں نےحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے حوالہ سے ایک حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:’’جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کیا جائےاور جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو گالی دی تو اسے کوڑے مارے جائیں۔‘‘[10]

پاکستان میں نافذ العمل تو ہین رسالت کی سزا تمام انبیاء  علیہ السلام  کی توہین کرنے والوں کے لیے عام ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔’’جو کوئی عملاً زبانی یا تحریری طور پریا بطور طعنہ زنی یا بہتان تراشی بالواسطہ ،اشارۃ یا کنایۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین یا تنقیص یا بے حرمتی کرے وہ سزائےموت کا مستوجب ہو گا اور اسے سزائےجرمانہ بھی دی جائے گی اگر وہی اعمال اور چیزیں دوسرے پیغمبروں کے متعلق کہیں جائیں تو وہ بھی اس سزا کا متوجب ہو گا۔‘‘

لیکن اس سلسلہ  میں کسی عام انسان کو قتل کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے حکومت کے نوٹس میں لانا ہو گا اگر واقعی کسی نے بد یانتی کی بناء پر کسی نبی کی تو ہین کی ہے تو اسے کیفرکردار تک پہنچانا حکومت کاکام ہے ،ہر آدمی کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ گستاخ رسول کو قتل کردے کیونکہ اس سے انار کی اور فساد پھیلنے کا اندیشہ ہے۔


[1] ۔بخاری ،الایمان:15۔

[2] ۔مسلم :2266۔

[3] ۔سنن ابی داؤد۔الحدود:4362۔

[4] ۔ابو داؤد۔الحدود:6361۔

[5] ۔نسائی:4082۔

[6] ۔المغازی:4037۔

[7] ۔مصنف عبدالرزاق ،ص:307۔،ج5۔

[8] ۔الصارم المسلول ،ص:92۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:33

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ