السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قطب وابدال کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟کچھ اہل علم مشکوۃ المصابیح کے حوالے سے احادیث پیش کرتے ہیں۔ جن میں ابدال وغیرہ کا ذکرہے۔کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے متعلق ہماری راہنمائی کریں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قطب وابدال کی کوئی حیثیت نہیں ہے،ہمارے ہاں صوفیاء حضرات نے اس طرح کی باتیں لوگوں میں مشہور کر رکھی ہیں کہ فلاں شخص ابدال میں سے تھا۔ مشکوۃالمصابیح کی درج ذیل حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جا تا ہے۔
حضرت شریح بن عبید کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس اہل شام کا ذکر کیا گیا اور ان سے کہا گیا:اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ !ان پر لعنت کریں تو آپ نے فرمایا۔نہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:"ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس افراد پر مشتمل ہوں گے۔ ان میں سے جب ایک آدمی فوت ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو لے آئے گا ان کی وجہ سے بارش برستی ہے اور ان کے ذریعے دشمنوں سے بدلہ لیا جا تا ہے اور ان کی بنا پر اہل شام سے عذاب دور کیا جا تا ہے۔[1]
اس روایت کو صاحب مشکوۃ نے مسند امام احمد کے حوالہ سے ذکر کیا ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو مسند علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بیان کیا ہے۔[2]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی حضرت شریح بن عبید کی ملاقات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت نہیں ہے جیسا کہ حافظ احمد شاکر نے اس کے متعلق لکھا ہے۔[3]اسی طرح امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت امت میں اختلاف رونما ہوگا تو اہل مدینہ سے ایک آدمی بھاگ کر مکہ مکرمہ آئے گا ۔لوگ اس کی مقام ابراہیم اور رکن یمانی کے درمیان بیعت کریں گے پھر جب لوگ یہ منظر دیکھیں گے تو اس کے پاس شام کے ابدال اور عراق کے گروہ آئیں گے اور اس کی بیعت کریں گے۔[4]
لیکن یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ہے کیونکہ اس روایت میں ابو قتادہ مدلس راوی ہے جس نے صالح ابی الخلیل سے عن کے صیغہ سے روایت بیان کی ہےپھر اس روایت میں صالح ابی الخلیل کے استاد"صاحب لہ"بھی مجہول ہے، ان علتوں کی وجہ سے یہ روایت بھی ناقابل اعتبار ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ اس امت میں تیس ابدال ہوں گے۔[5]
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اسے منکر قرار دیا ہے چنانچہ اس کی سند میں حسن بن ذکوان نامی راوی ضعیف ہونے کی بنا پر یہ روایت ناقابل حجت ہے، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح کی جملہ روایات پر بایں الفاظ تبصرہ کیا ہے ۔
’’بعض کتب میں ابدال ،اقطاب ،اغواث ،نقباء،نجباءاور ورثاء سے متعلق احادیث ہیں، اس طرح کی تمام روایات باطل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف باطل طور پر انہیں منسوب کیا گیا ہے۔‘‘[6]
بہر حال دنیا کا نظام بدلنے یا چلانے والے ابدال سراسر جھوٹ کا پلنداہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔مشکوۃ۔ذکراہل شام ،حدیث نمبر:6277۔
[2] ۔۔مسند امام احمد،ص:112۔ج1۔
[3] ۔۔مسند امام احمد،ص:171،ج2۔تحقیق احمد شاکر۔
[4] ۔ابو داؤدالمہدی:4286۔
[5] ۔مسند امام احمد،ص:322۔ج5
[6] ۔المنارالمنیف،ص:136۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب