سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) دعا کا مبدل تقدیر ہونا

  • 19652
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 884

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے مقدر میں جو لکھا ہے کہ وہ ہر صورت مل کر رہے گا،اور جو ہمارے مقدر میں نہیں لکھا گیا وہ ہمیں کسی صورت میں نہیں مل سکتا۔ ایسے حالات میں دعا کرنے کا کیا فائدہ ہے اور یہ کیا کردار ادا کرتی ہے؟کتاب و سنت کی روشنی میں اس الجھن کو حل کریں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کے ارکان و شعار کے متعلق اس قسم کے اعتراضات پہلے بھی ہوئے ہیں اور ہمارے اسلاف نے ان اعتراضات کے جوابات بھی دئیے ہیں۔ اس کے متعلق صحیح جواب یہ ہے کہ دنیا میں معاملات کا وقوع پذیر ہونا اسباب کے ساتھ معلق کیا گیا ہے جیسا کہ اگر کسی بیج کے متعلق یہ مقدر ہے کہ اس نے اگنا اور پھلنا پھولنا ہے تو اس کی یہ تقدیر اسباب و ذرائع کے بجا لانےسے معلق ہوگی۔اسے زمین میں کاشت کیا جائے گا۔ پھر اسے پانی بھی دیا جائے گا۔زمینی آفات سے اس کی نگرانی بھی کی جائےگی،اس کے بعد یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ بیج اگے اور پھلے پھولے گا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اس سوال کا جواب اپنے مخصوص انداز میں دیا ہے کہ سوال میں بیان کردہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ ہم ہر قسم کے اسباب و ذرائع کو معطل کردیں اور انھیں بالکل عمل میں نہ لائیں کیونکہ اگر ہمارے مقدر میں سیر ہونا لکھا ہے تو ہو کر رہے گا۔ خواہ ہم کھانا کھائیں یا نہ کھائیں،اسی طرح اگر ہمارے مقدر میں اولاد ہے تو وہ ہو کر رہے گی خواہ ہم شادی کریں یا نہ کریں اور شادی کرنے کے بعد بیوی کے پاس جائیں یا نہ جائیں، کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کا اقرار کرتا ہے بلکہ دنیا میں اسے احمق کہا جائے گا،کیونکہ کسی چیز کا وقوع پذیر ہو نا اسباب سے معلق ہے،وہ اسباب بھی تقدیر کا حصہ ہیں اور ان کی بجا آوری ضروری ہے، ہمارا رزق طے شدہ ہے لیکن اس کے لیے بھاگ دوڑ ، محنت و مشقت اور ذرائع و اسباب کو استعمال کرنا ضروری ہے گھر بیٹھ رہنے سے وہ مقدر حاصل نہیں ہو گا۔چنانچہ اس بات کی وضاحت ایک حدیث میں بایں الفاظ ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ عمر میں کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اضافہ ہوتا ہے، بری تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے اور آدمی بعض اوقات اپنے برے کردار کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔[1]

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور حسن سلوک انسان کی عمر میں اضافہ کا سبب ہے، جب اسے عمل میں لایا جائے گا تو سبب یعنی عمر میں اضافہ ہو گا اور یہ دونوں باتیں یعنی نیک عمل کرنا اور عمر میں اضافہ ہونا تقدیر کا حصہ ہیں۔اسی طرح کسی پریشانی یا بیماری میں مبتلا ہونا تقدیر کا حصہ ہے اور دعا یادواسے اس کا دورہونا بھی اللہ کے ہاں لکھا ہوا ہے۔ چونکہ ہم اسباب و ذرائع کو استعمال کرنے کے پابند ہیں۔ اس لیے ان کی بجا آوری بھی ضروری ہے۔ چنانچہ یہ بات اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں آدمی فلاں گناہ کے ارتکاب سے رزق سے محروم ہو گا جب وہ گناہ کرے گا تو ضروراس رزق سے محروم ہو گا، اگرچہ احتیاطی تدابیر بعض اوقات کار گر ثابت نہیں ہوتیں۔تاہم دعا ایک ایسی احتیاطی تدبیرہے کہ یہ کسی صورت ضائع نہیں ہوتی جیسا کہ ایک حدیث میں واضح ارشاد ملتا ہے۔[2]


[1] ۔مسند امام احمد ،ص:277۔ج5۔

[2] ۔ مسند امام احمد ،ص:234۔ج5۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:3، صفحہ نمبر:26

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ