السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک حدیث میں ہے کہ تقدیر کو بندے کی دعا رد کرسکتی ہے اور نیکی کرنے سے عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔جبکہ مشہور بات ہے کہ اللہ کی تقدیر اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہماری یہ عادت ہے کہ ہم ہر اچھے برے کام کے لیے بھر پور کوشش کرتے ہیں۔جب ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اسے تقدیر کے کھاتہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا وقوع اسباب و ذرائع سے متعلق ہے جیسا کہ بیج کے لیے طے شدہ امر ہے کہ اس نے اگنا ہوتا ہےلیکن اس کے لیے اسباب مہیا کرنا ہوں گے کہ اسے زمین میں کاشت کیا جائےاسے پانی بھی دیا جائے گا اور اس کے علاوہ اس کی نگرانی بھی کی جائے گی۔اسباب ووسائل کو بروئے کارلانے کے بعد اس سے مقدر چیز حاصل ہو گی جبکہ سوال میں ذکر کردہ حدیث بھی اسی مفہوم کی تائید کرتی ہے کہ نیکی اور حسن سلوک عمر میں اضافہ کا باعث ہے اور دعا تقدیر کو رد کردیتی ہے اور انسان گناہ کرنے کی بناءپر رزق سے محروم کردیا جاتا ہے۔[1]
اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور حسن سلوک عمر میں اضافہ کرنے کا سبب ہے۔ جب سبب حاصل ہوگا تو مسبب بھی موجود ہو گا باقی رہا یہ اعتراض کہ دعا تقدیر کو کیسے رد کرسکتی ہے تو گزارش ہے کہ بیماری کا آنا بھی اللہ کی تقدیر ہے۔اور دعا کرنا بھی اللہ کی تقدیر ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مرض کو دور کرتا ہے۔دنیا میں ہر چیز اللہ کی تقدیر سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ اس نوشتہ تقدیر میں کمی بیشی کرنے پر قادر ہے وہ اسے لکھنے کے بعد بے بس اور عاجز نہیں ہو گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ﴾[2]
’’اللہ جو چاہے مٹادے اور جو چاہے ثابت رکھے ،لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔‘‘
بہر حال اللہ تعالیٰ اسباب و ذرائع اختیار کرنے سے تقدیر میں ردو بدل کرنے پر قادر ہے۔حسن سلوک کرنے سے عمر میں برکت ہوتی ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی عمر میں عملاً اضافہ ہو جاتا ہے یا اس کی عمر تو اتنی رہتی ہے لیکن اس میں کی طرف سے برکت آجاتی ہے کہ جو کام اس نے ایک سال میں کرنا ہوتا ہے وہ عمر میں برکت پڑنے کے بعد ایک ماہ میں ہو جا تا ہے۔
بہر حال تقدیر کا موضوع ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کوئی بندہ بشر معلوم نہیں کر سکا اس لیے تقدیر کے معاملہ میں پرہیز اور خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔(واللہ اعلم)
[1] ۔مسند امام احمد ،ص:277،ج5۔
[2] ۔13/الرعد:39۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب