سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(797) کسی گناہ کی پاداش میں سزا پانا اور برکت کا ختم ہونا

  • 19645
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1082

سوال

(797) کسی گناہ کی پاداش میں سزا پانا اور برکت کا ختم ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے پڑھا ہے کہ اللہ کی طرف سے سزاپانا اور برکت کا ختم ہونا گناہوں کے نتیجے ہیں تو میں اس کے خوف سے بہت روئی میری راہنمائی کرو۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گناہوں کا ارتکاب اللہ کے غصے برکت کے ختم ہونے بارش کے رکنے اور دشمنوں کے مسلط ہونے کے اسباب سے ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے۔

﴿وَلَقَد أَخَذنا ءالَ فِرعَونَ بِالسِّنينَ وَنَقصٍ مِنَ الثَّمَر‌ٰتِ لَعَلَّهُم يَذَّكَّرونَ ﴿١٣٠﴾... سورةالاعراف

"اور بلاشبہ یقیناً ہم نے فرعون کی آل کو قحط سالیوں اور پیداوار کی کمی کے ساتھ پکڑا تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔"نیز فرمایا:

﴿فَكُلًّا أَخَذنا بِذَنبِهِ فَمِنهُم مَن أَرسَلنا عَلَيهِ حاصِبًا وَمِنهُم مَن أَخَذَتهُ الصَّيحَةُ وَمِنهُم مَن خَسَفنا بِهِ الأَرضَ وَمِنهُم مَن أَغرَقنا وَما كانَ اللَّهُ لِيَظلِمَهُم وَلـٰكِن كانوا أَنفُسَهُم يَظلِمونَ ﴿٤٠﴾... سورة العنكبوت

"پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پرظلم کرتے تھے"

اس مفہوم کی آیات بہت زیادہ ہیں اور نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   سے صحیح ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"وإنَّ العبد ليُحرَم الرِّزقَ بالذنب يصيبه "[1]

"بندہ اپنے کیے ہوئے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کیا جا تا ہے۔"

لہٰذا ہر مسلمان مرد اور عورت کا فریضہ ہے کہ اللہ سے اچھا گمان رکھتے ہوئے اور بخشش کی امید کرتے ہوئے اور اس کے غصے اور سزا سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے پر ہیز کرے اور گزشتہ سے توبہ کرے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں اپنی پیاری کتاب میں فرمایا ہے۔

﴿كانوا يُسـٰرِعونَ فِى الخَير‌ٰتِ وَيَدعونَنا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكانوا لَنا خـٰشِعينَ ﴿٩٠﴾... سورةالأنبياء

"وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے۔اور ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔"نیز فرمایا:

﴿ أُولـٰئِكَ الَّذينَ يَدعونَ يَبتَغونَ إِلىٰ رَبِّهِمُ الوَسيلَةَ أَيُّهُم أَقرَبُ وَيَرجونَ رَحمَتَهُ وَيَخافونَ عَذابَهُ إِنَّ عَذابَ رَبِّكَ كانَ مَحذورًا ﴿٥٧﴾... سورة الإسراء

"جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وه اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیاده نزدیک ہوجائے وه خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزده رہتے ہیں، (بات بھی یہی ہے) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے" نیز فرمایا:

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَيُقيمونَ الصَّلو‌ٰةَ وَيُؤتونَ الزَّكو‌ٰةَ وَيُطيعونَ اللَّهَ وَرَسولَهُ أُولـٰئِكَ سَيَرحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ ﴿٧١﴾... سورةالتوبة

"مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے"

اسی کے ساتھ ایماندار مرد و عورت کے لیے ان اسباب کو اختیار کرنا جائز ہے۔ بندہ اسی طرح خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اسباب کو عمل میں لاتے ہوئے حصول مطلوب اور خوفزدہ چیزوں سے سلامتی کی خاطر اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اللہ سبحانہ ہی سخی باعزت ہے جو یوں گویا ہو تا ہے۔

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ ...﴿٣﴾... سورةالطلاق

"اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے گا۔ اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔"نیز فرمایا:

﴿وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورةالطلاق

"اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کر دے گا۔"

اور وہی تو کہتا ہے۔

﴿وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورةالنور

"اور تم سب اللہ کی طرف توبہ کرواے مومنو!تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔"

لہٰذا اے میری بہن ! تم پر گزشتہ گناہوں کی وجہ سے اللہ سے توبہ کرنا اور اس کی بندگی پر استقامت اختیار کرنا اور اس سے حسن ظن رکھنا اور اس کی ناراضگی سے بچنا واجب ہے خیر کثیر اور قابل تعریف انجام سے خوش ہو جاؤ ۔(سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔حسن سنن ابن ماجہ رقم الحدیث(90)

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 715

محدث فتویٰ

تبصرے