سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(794) کسی فوت شدہ کے عقیقے کے بارے میں شرعی حکم

  • 19642
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3071

سوال

(794) کسی فوت شدہ کے عقیقے کے بارے میں شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری والدہ وفات پا چکی ہے اور میں اس کے لیے عقیقہ کرنا چاہتی ہوں بغداد کی مسجد کے امام سے پوچھنے پر اس نے کہا ہے کہ عقیقہ زندہ کے لیے کار آمد ہے مردہ کے لیے نہیں ہو سکتا لہٰذا اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردے کے لیے عقیقہ مشروع نہیں بلکہ انسان کی ولادت کے ساتویں دن مشروع ہے اس کے باپ کے لیے مشروع ہے کہ وہ اپنے بچے سے عقیقہ کرے چاہے وہ مذکر ہو یا مؤنث ہو لین مذکر کے دو (بکریاں) اور مؤنث کا ایک (بکری) سے عقیقہ ہو گا ۔جو ساتویں دن ذبح کیا جائے گا اس سے کھایا صدقہ اور تحفہ بھی دیا جا سکتا ہے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ ساتویں دن اس کی اپنے قریبیوں اور پڑوسیوں کو دعوت دے اور باقی کو صدقہ کردے لہٰذا اس میں وہ دونوں عملوں (کھانے اور صدقہ کرنے) کا جامع ہو۔

اگر انسان غریب ہو اور مذکر سے ایک بکری عقیقہ کرے تو وہی اسے کافی ہو گا علماء کا تو کہنا ہے کہ اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر اس دن بھی ممکن نہ ہوتو اکیسویں دن اگر نہ ہو سکے تو جس دن بھی چاہے ذبح کر لے یہ عقیقہ ہی ہو گا۔

البتہ میت کا عقیقہ نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے بخشش رحمت اور خیر وغیرہ کی دعا کی جاسکتی ہے کیونکہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے جس کو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے بیان کیا ہے۔

" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثَةٍ : إِلا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ"[1]

"جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو سوائے تین کے باقی تمام اعمال ختم ہو جاتے ہیں۔صدقہ جاریہ نفع بخش علم ایسی نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔"

لہٰذا نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: "وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ" (یا ایسا نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرے)یہ نہیں کہا کہ ایسا نیک بچہ جو اس کے لیے روزہ رکھے یا اس کے لیے نماز پڑھے یا اس سے صدقہ کرے یا اس سے ملتے جلتے کام کرے۔ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میت کے لیے دعا کرنا اس سے بہتر ہے جو اس کی طرف سے ہدیہ کیا جاتا ہے اور اگر انسان میت کے لیے کوئی نیک کام بھی کرے یعنی میت کے لیے کوئی چیز صدقہ کرے یا میت کے لیے دو رکعتیں پڑھے یا قرآن مجید پڑھ کر اس کا ثواب میت کے لیے کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا لیکن ان تمام سے اس کے حق میں دعا کرنا بہتر ہو گا ۔کیونکہ اسی کی طرف نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   نے راہنمائی کی ہے(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1631)

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 713

محدث فتویٰ

تبصرے