سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(781) کسی اچھی نذر سے عاجز ہونے کی صورت میں حکم

  • 19629
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 989

سوال

(781) کسی اچھی نذر سے عاجز ہونے کی صورت میں حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی عورت نے نذر مانی کہ اگر اسے صحت وسلامتی کے ساتھ ولادت ہوئی اور بچہ زندہ رہا تو وہ ایک سال روزے رکھے گی۔پھر واقعتاً حمل بھی بچ گیا اور پیدائش بھی ہوگئی۔اب اس کا بیان ہے کہ وہ روزے سے عاجز ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کوئی شبہ نہیں کہ فرمانبرداری کی نذر عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے،اور اللہ نے نذر پوری کرنے والوں کی تعریف بھی کی ہے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿يوفونَ بِالنَّذرِ وَيَخافونَ يَومًا كانَ شَرُّهُ مُستَطيرًا ﴿٧﴾... سورةالدهر

"جو اپنی نذر پوری کرتے ہیں،اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہوگی۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

" مَنْ نَذَرَ أَنْ يُطِيعَ اللَّهَ فَلْيُطِعْهُ ، وَمَنْ نَذَرَ أَنْ يَعْصِيَهُ فَلَا يَعْصِهِ""[1]

"جس نے اللہ کی فرمانبرداری کی نذر مانی ہے وہ اس کی فر مانبرداری کرے،اور جس نے اللہ کی نافرمانی کی نذر مانی وہ نافرمانی نہ کرے۔"

کسی آدمی نے بوانہ مقام پر ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس سے پوچھا:

" هل كان فيها وثن من أوثان الجاهلية يعبد ؟ کیا اس میں جاہلیت کے بتوں سے کوئی بت تو نہیں جس کی عبادت کی جاتی ہے؟"

تو اس نے کہا:نہیں،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے پوچھا:

"هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ؟"کیا اس میں ان کی عید میلوں سے کوئی عید میلہ تو نہیں؟"تو اس نے کہا:نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"أَوْفِ بِنَذْرِكَ فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ "[2]

"اپنی نذر کو پورا کر کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں نذر کو پورا کرنے کا جواز نہیں اور نہ اس میں جو ابن آدم کے لیے ناممکن ہے۔"

جو فتویٰ پوچھنے والی نے یہ بیان کیا ہے کہ اس نے نذر مانی کہ ایک سال روزے رکھے گی تو سال کے پے درپے روزے زمانے بھر کے روزے کی قبیل سے ہیں،اور زمانے بھر کے روزے مکروہ ہیں کیونکہ صحیح بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے کہا ہے:

" من صام الدهر فلا صام ولا أفطر"[3]

"جس نے زمانے بھر کے روزے رکھے نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔"

اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مکروہ عبادت اللہ کی نافرمانی ہے ،اسے پورا کرنے کا جواز نہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ   کا کہنا ہے کہ جس نے مکروہ عبادت کی نذر مانی ہو،مثلاً:ساری رات کا قیام اور ہردن کا روزہ،اس نذر کو پورا کرنا ضروری نہیں۔لہذا اسی بنا پر سوال کرنے والی کفارہ قسم لازم ہوگا:دس مسکینوں کو کھاناکھلانا،ہر مسکین کو کھجور وغیرہ سے تقریباً سوا کلو جو کہ عموماً اس علاقے کی خوراک ہو۔اگر وہ طاقت نہ رکھے تو پے در پے تین دنوں کے  روزے رکھے۔(سماحۃالشیخ عبدالعزیز بن باز  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6318)

[2] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(3313)

[3] ۔صحیح مسند احمد(25/4)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 698

محدث فتویٰ

تبصرے