سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(779) انسان کا اپنی نذر کو کسی دوسری جہت پھیر دینا

  • 19627
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 968

سوال

(779) انسان کا اپنی نذر کو کسی دوسری جہت پھیر دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا انسان کے لیے اپنی نذر کی جہت کو بدلنا جائز ہے؟جب وہ کوئی ایسی جہت پاتا ہو جو اس سے زیادہ قابل استحقاق ہو جبکہ اس نے نذر کاتعین اور اس کی وجہ کاتعین بھی کیا ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس جواب سے پہلے میں تمہید! کچھ عرض کر تا ہوں کہ انسان کے لیے نذر ماننا مناسب نہیں کیونکہ نذر ماننا مکروہ یا  حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے اس سے منع کیاہے اور فرمایا:

" إنه لا يأتي بخير ، وإنما يستخرج به من البخيل "[1] 

"یقیناً یہ بھلائی نہیں لاتی بلکہ اس سے تو کنجوس سے نکالا جاتاہے۔"

نذر ماننے سے جس بھلائی کی توقع رکھتا ہے اس کے لیے نذر سبب نہیں بن سکتی۔اکثر لوگ  جب بیمار ہوتے ہیں تو نذر مانتے ہیں کہ جب اللہ اسے شفا دے گا تو وہ ایسے ایسے کرے گا،اور جب اس کی کوئی  چیز گم ہوجائے تو اگر وہ اسے پائے گا تو وہ فلاں فلاں کام کرے گا،پھر اگر وہ شفا یاب یا گم شدہ کو حاصل کرلیتا ہے تو یہ مطلب نہیں ہوگا کہ نذر اس کی وجہ بنی ہے بلکہ یہ محض اللہ کی طرف سے ہوا ہے۔

اللہ اپنے آپ سے سوال کی گئی چیز عطا کرنے میں شرط کا محتاج نہیں بلکہ آپ کا ذمہ ہے کہ آپ اللہ سے اس مریض کی شفا اور اس گم شدہ کو لانے کا سوال کریں لیکن نذر کی کوئی وجہ اور ضرورت نہیں۔اکثر نذر ماننے والے جب ان کی نذر کا مقصودحاصل ہوجاتا ہے تو وہ نذر پوری کرنے میں سستی کرتے ہیں کچھ تو پورا کردیتے ہیں اور کچھ اسے رہنے دیتے ہیں،یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔آپ اللہ کے اس فرمان کو غور سے سنیں:

﴿وَمِنهُم مَن عـٰهَدَ اللَّهَ لَئِن ءاتىٰنا مِن فَضلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكونَنَّ مِنَ الصّـٰلِحينَ ﴿٧٥ فَلَمّا ءاتىٰهُم مِن فَضلِهِ بَخِلوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَهُم مُعرِضونَ ﴿٧٦﴾... سورةالتوبة

"اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ یقیناً اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمایا تو ہم ضرور ہی صدقہ کریں گے اور ضرور ہی نیک لوگوں سے ہوجائیں گے،پھر جب اس نے انھیں اپنے فضل میں سے کچھ عطا فرمایا تو انھوں نے اس میں بخل کیا اور منہ موڑ گئے اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے تھے۔"

اسی بنیاد پر ایماندار کے لیے نذر ماننا مناسب نہیں لیکن رہا سوال کا جواب تو ہم کہتے ہیں کہ جب انسان کسی مقام پر نذر مانتاہے اور اس کے علاوہ کو اس سے بہتر سمجھ لیتا ہے اور اللہ کی قربت کا اقرب ذریعہ اور اللہ کے بندوں کے لیے زیادہ فائدہ مند تو نذر کی جہت کو فضیلت والے مقام کی طرف بدلنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔اس کی دلیل یوں ہے کہ کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا تو اس نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  !میں نے نذر مانی ہے کہ اگر اللہ آپ پر مکہ کو فتح کر دے گا تو میں بیت المقدس میں نماز ادا کروں  گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"صَلِّ هَاهُنَا ""یہاں نماز پڑھ لیں"پھر آدمی نے دوبارہ کہا تو آ پ نے کہا:"صَلِّ هَاهُنَا ""یہاں نماز پڑھ لیں"پھر اس نے دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: " شأنك إذا "(جیسے تمہاری مرضی) تو یہ حدیث اس کی طرف  راہنمائی کرتی ہے کہ جب انسان اپنی کم تر درجے کی نذر سے افضل کی طرف منتقل ہونا چاہتا ہے تو یہ جائز ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن  صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(6234)  صحیح مسلم ر قم الحدیث(1639)

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 696

محدث فتویٰ

تبصرے