السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میلاد کی محفلیں اور جشن منانے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت مطہرہ میں جشن عید میلاد کی کوئی بنیاد نہیں بلکہ یہ بدعت ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
"من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد"[1]
"جس نے کوئی ایسا کام ایجاد کیا جس کا تعلق دین سے نہیں تو وہ مردود ہو گا۔"
اس کے صحیح ہونے پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہے اور مسلم کی ایک دوسری روایت ہے جسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں جزم کے صیغے سے معلق بیان کیا ہے
"مَنْ عَمِلَ عَمَلاً ليسَ عليه أمرُنا هذا فهو رَدٌّ"[2]
"جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ قابل قبول نہیں ہو گا۔"
اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری زندگی اپنی پیدائش کا میلاد نہیں منایا نہ اس کا حکم ہی دیا اور نہ ہی اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی تعلیم دی۔ اسی طرح خلفائے راشدین نے بھی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ایسا عمل کبھی نہیں کیا جبکہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو جاننے والے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی پر سب سے زیادہ حریص تھے تو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جشن ولادت منانا مشروع ہوتا تو وہ اس کی طرف سبقت کرتے اور ایسے ہی خیرالقرون کے علمائے کرام میں سے کسی نے اسے نہ کیا اور نہ حکم دیا ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ اس شریعت سے نہیں جس کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ اور تمام مسلمانوں کو گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہوتا یا حکم دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے اسے کیا ہوتا تو ہم بھی اس کی طرف جلدی کرتے اور اس کی طرف دعوت بھی دیتے کیونکہ ہم الحمد اللہ آپ کی سنت کی اتباع اور حکم و نہی کی تعظیم پر لوگوں میں سب سے زیادہ حریص ہیں ہم اللہ سے اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے حق پر ثابت قدمی اور شریعت کے خلاف ہر کام سے عافیت کا سوال کرتے ہیں یقیناً وہ باعزت سخی ہے(سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2550)صحیح مسلم رقم الحدیث (1718)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (1717)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب