السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
«الاول : (الرَّجُلُ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ بِلَفْظٍ اَنْتِ بَائِنٌ فَهَلْ يُعَدُّ هٰذَا اللَّفْظُ (اَی اَنْتِ بَائِنٌ) طَلاَقًا بَائِنًا اَوْ طَلاَقًا رَجْعِيًّا)
اَلْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ : اَلرَّجُلُ يُرْسِلُ اِلٰی امْرَأَتِه رُقْعَةً يَکْتُبُ فِيْهَا لَفْظَ اَنْتِ طَالِقٌ فَبَعْدَ مُدَّةٍ مَثَلاً بَعْدَ اُسْبُوْعٍ زَعَمَ اَنَّ رُقْعَتَهُ الْمُرْسَلَةَ اِلٰی زَوْجَتِةِ مَا بَلَغَتْ اِلَيْهَا فَکَتَبَ اِلَيْهَا رُقْعَةً اُخْرٰی کَتَبَ فِيْهَا اَنْتِ طَالِقٌ وَمَا اَرَادَ بِاَنْتِ طَالِقٌ ثَانٍ تَجْدِيْدَ الطَّلاَقِ بَلِ الْمُرَادُ مِنْهَا الَّتِیْ کُتِبَتْ فِی الرُّقْعَةِ الْمُرْسَلَةِ قَبْلَ هٰذِهِ الْاُسْبُوْعِ ثُمَّ ظَنَّ اَنَّ هٰذِهِ الرُّقْعَةَ مَا بَلَغَتْ اِلَيْهَا فَکَتَبَ اِلَيْهَا رُقْعَةً بَعْدَ اُسْبُوْعٍ فِيْهَا اَنْتِ طَالِقٌ وَمَا اَرَادَ بِهٰذِهِ الْجُمْلَةِ اِلاَّ الَّتِیْ کَتَبَهَا فِیْ اَوَّلِ الرُّقْعَةِ هَلْ يُعَدُّ الطَّلاَقُ بِهٰذِهِ الطَّرِيْقَةِ وَاحِدًا رَجْعِيًّا اَوْ ثَلاَثًا»
الاول : ایک آدمی اپنی بیوی کو اَنْتِ بَائِنٌ کے لفظ سے طلاق دیتا ہے کیا اس لفظ سے دی گئی طلاق بائن ہو گی یا طلاق رجعی ؟
الثانی : ایک آدمی اپنی بیوی کو ایک رقعہ بھیجتا ہے اور اس میں اَنْتِ طَالِقٌ کا لفظ لکھتا ہے تو کچھ مدت کے بعد مثلاً ایک ہفتہ کے بعد وہ سمجھتا ہے کہ اس کا بھیجا ہوا رقعہ اس کی بیوی تک نہیں پہنچا پھر وہ اس کی طرف دوسرا رقعہ لکھتا ہے جس میں اَنْتِ طَالِقٌ لکھتا ہے اور وہ دوسرے اَنْتِ طَالِقٌ سے نئی طلاق کا ارادہ نہیں کرتا ۔ بلکہ دوسرے رقعہ سے مراد پہلی طلاق ہی ہے جو ایک ہفتہ پہلے بھیجی گئی ہے پھر وہ سمجھتا ہے کہ یہ رقعہ اس کو نہیں ملا تو ایک ہفتہ کے بعد وہ تیسرا رقعہ لکھ کر بھیج دیتا ہے اس میں اَنْتِ طَالِقٌ لکھتا ہے اور اس جملہ سے اس کی مراد وہی ہے جو پہلے رقعہ میں لکھا تھا کیا اس طریقہ سے دی ہوئی طلاق ایک رجعی طلاق ہو گی یا تین طلاقیں ہو جائیں گی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
«قَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ أَمْرَيْنِ ، وََجَوَابُهُمَا کَمَا يَأْتِیْ بَعْدُ بِتَوْفِيْقِ اﷲِ جَاعِلِ الْمَلْوَيْنِ»
«اَلْأَوَّلُ:يُعَدُّ طَلاَقًا رَجْعِيًّا۔ اَلثَّانِیْ : يُجْعَلُ طَلاَقًا وَاحِدًا رَجْعِيًّا »
’’آپ نے مجھ سے دو سوال کیے ہیں اور ان کا جواب درج ذیل ہے اللہ کی توفیق سے جو دن رات کو بنانے والا ہے ۔ الاول : طلاق رجعی شمار کی جائے گی ۔ الثانی : ایک رجعی طلاق شمار کی جائے گی‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب