السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تعلیم اور مطلوبہ واجبات کی ادائیگی پر ابھارنے اور ان میں کسی طرح کی سستی نہ کرنے کی عادت ڈالنے کی غرض سے طالبات کو مارنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی حرج نہیں لہٰذا استاد ،استانی اور باپ ان تمام کا ذمہ ہے کہ وہ بچوں پر توجہ کریں اور جو بھی تادیب کا مستحق ہو اس کی تادیب کریں اگر وہ واجب کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تاکہ وہ عمدہ اخلاق کا عادی ہو جائے اور وہ نیک عمل پر مضبوط ہوجائے یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" مُرُوا أَوْلادَكُمْ بِالصَّلاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ "[1]
"اپنے بچوں کو ساتویں سال میں نماز کا حکم دو۔ اور اس پر انھیں دس سال میں مارو پیٹو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔"
اور مذکر اور مونث اولاد جب دس سال کو پہنچ جائیں اور نماز میں کو تاہی کریں تو انھیں مارا جائے اور انھیں ادب سکھایا جائے تاکہ وہ نماز کی پابندی کریں اسی طرح تعلیم اور دیگر گھریلو فرائض میں بھی ایسا ہی ہو گا نیز گھر کے کاموں وغیرہ میں اور مذکروں اور مؤنثوں کے اولیاء کا فریضہ ہے کہ وہ ان کو ادب سکھانے اور انھیں مہذب بنانے کا اہتمام کریں لیکن پٹائی ہلکی ہونی چاہیے جس میں کوئی نقصان نہ ہو بلکہ صرف مقصدحاصل ہو جائے(سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (495)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب