سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(730) ملازمت سے چھٹی کے ڈر سے انکار منکر سے رک جانے کا حکم

  • 19578
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 791

سوال

(730) ملازمت سے چھٹی کے ڈر سے انکار منکر سے رک جانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں سکول کے ایک یونٹ میں نرس کی حیثیت سے ملازم تھی می نے اپنی ملازمت کے دوران ایک خلاف شرع بات کا انکار کیا تو یہ میری ملازمت سے معطلی کا ذریعہ بن گیا میں اپنی بد نصیبی  اور نفسانی مشکلات کے سبب اپنے بچوں کو کسی بھی برائی کا انکار کرنے سے منع کر دیتی ہوں میں حل کی امید وارہوں اللہ آپ کو بدلہ دے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ تمھارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اس کرنے والے کی ایک بڑی غلطی ہے جس نے ایسا کیا ہے بشرطیکہ تم نے برائی کا علم و بصیرت سے انکار کیا ہو۔ تجھ پر برائی کا نکار کرنا ضروری ہے۔ تیری ملازمت سے معطلی اور اس کا تجھ سے بے پرواہ ہونا تجھے کوئی نقصان نہیں دے سکتا در حقیقت تونے اپنے پروردگار کو راضی کر لیا ہے اور جسے راضی کرنا تجھ پر ضروری تھا اسے بھی کر گزری۔ معاملات تو تمام کے تمام اللہ کے ہاتھ میں ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   سے صحیح ثابت ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"مَن رَأى مِنكُم مُنكَرَاً فَليُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَستَطعْ فَبِقَلبِه وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإيمَانِ"[1]

"تم میں سے جس نے کوئی برائی دیکھی تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدلے اگر اس کی طاقت نہ رکھ سکے تو اپنی زبان سے اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھ سکے تو اپنے دل سے اور یہ انتہائی کمزور ایمان ہے۔"

اللہ تعالیٰ اپنی پیاری کتاب میں فرماتے ہیں۔

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ يَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَيَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ ...﴿٧١﴾... سورةالتوبة

"اور مومن مرد اور مومن عورتیں ان کے بعض بعض کے دوست ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں۔"

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ ... ﴿١١٠﴾... سورةآل عمران

"تم سب سے بہتر امت چلے آئے ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔"

اگر توتونے یہ اللہ کی فرمانبرداری اور اس کی خوشنودی کو تلاش کرتے ہوئے کیا ہے تو انجام اچھا ہوگا اور جو ہوا وہ باعث نقصان نہیں ہو گا اور عنقریب اللہ آپ کو اس سے بے پرواہ کردے گا اللہ ہی رزق دینے والا ہے اور تمام اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں وہی تو کہنے والا ہے۔

﴿فَإِذا بَلَغنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمسِكوهُنَّ بِمَعروفٍ أَو فارِقوهُنَّ بِمَعروفٍ وَأَشهِدوا ذَوَى عَدلٍ مِنكُم وَأَقيمُوا الشَّهـٰدَةَ لِلَّهِ ذ‌ٰلِكُم يوعَظُ بِهِ مَن كانَ يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مَخرَجًا ﴿٢ وَيَرزُقهُ مِن حَيثُ لا يَحتَسِبُ وَمَن يَتَوَكَّل عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسبُهُ إِنَّ اللَّهَ بـٰلِغُ أَمرِهِ قَد جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَىءٍ قَدرًا ﴿٣ وَالّـٰـٔى يَئِسنَ مِنَ المَحيضِ مِن نِسائِكُم إِنِ ارتَبتُم فَعِدَّتُهُنَّ ثَلـٰثَةُ أَشهُرٍ وَالّـٰـٔى لَم يَحِضنَ وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجعَل لَهُ مِن أَمرِهِ يُسرًا ﴿٤﴾... سورةالطلاق

"اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے گا اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا اور جو کوئی اللہ پر بھروسا کرے تو وہ اسے کافی ہے۔بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرنے والا ہے یقیناً اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے اور وہ عورتیں جو تمھاری عورتوں میں سے حیض سے ناامید ہو چکی ہوں اگر تم شک کرو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنھیں حیض نہیں آیا اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے اس کے کام میں آسانی پیدا کردے گا۔

ایماندار عورت کا ذمہ اللہ سے ڈرناہے خواہ وہ استانی ہو یا نرس ہو یا اس کے علاوہ کوئی ہو اور خواہ لیڈی ڈاکٹر ہو یا ڈائریکٹر یا ان جیسی دیگر عورتیں نیکی کا حکم اور برائی سے باز کرنا تمام کا حق ہے کہ یہ مردوں پر ضروری ہے (جیسا کہ آیات اور احادیث اوپر ذکر کی گئیں )اور تونے اپنے بچوں کو برائی کے انکار سے منع کر کے غلطی کی ہے لہٰذا اللہ سے ڈر اور اس غلطی میں اس کی طرف توبہ کر اور انھیں وہی وصیت کر جو جو اللہ نے ان پر واجب کیا ہے۔(سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(49)

ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 646

محدث فتویٰ

تبصرے