السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ڈاکٹروں کے لیےعلاج کی غرض سے عورتوں کے پردوں کو کھولنا اور ان سے نتہائی اختیار کرنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی بات یہ ہے کہ عورت ویسے ہی پردہ ہے اور بہر حال مردوں کی لالچ و رغبت کا مقام ہے لہٰذا یہ مناسب نہیں کہ وہ مردوں کو اپنے جسم کی جانچ یا علاج کرنے کا موقع دے۔
دوسری بات:اگر مطلوبہ لیڈی ڈاکٹر نہ مل سکے تو مردوں سے علاج کروانے میں کوئی حرج نہیں اور یہ صورت مجبوری کی کیفیت سے زیادہ مشابہ ہے لیکن یہ حالت معروف قیود سے مقید ہوگی۔ اسی لیے فقہاء کا قول ہے"الضرورات تُقدَّر بقدرها"(ضرورت اپنے انداز ے سے مقدر ہوتی ہے)تو ڈاکٹر کو جس حصہ بدن کو دیکھنے اور چھونے کی کوئی ضرورت نہیں اسے دیکھنا اور چھونا ناجائز ہے اور بوقت علاج ان تمام کو چھپانا ضروری ہے جنھیں ننگا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
تیسری بات:عورت کے پردہ ہونے کے باوجود پردے مختلف ہوتے ہیں بعض میں سخت پردہ ہے اور بعض اس سے ہلکا ہوتا ہے جیسے عورت کی جن بیماریوں کا علاج کیا جا تا ہے تو ان میں کچھ بیماریاں خطرناک ہوتی ہیں ان کا علاج لیٹ کرنا مناسب نہیں ہوتا اور کچھ عام حوادثات سے ہوتی ہیں جن کے علاج کو لیٹ کرنا نقصان دہ نہیں ہوتا حتی کہ اس کا محرم رشتہ دار آجا تا ہے اور کوئی خطرہ بھی نہیں ہو سکتا اسی طرح عورتیں بھی الگ الگ ہوتی ہیں کچھ بوڑھی اور کچھ نوجوان خوبصورت اور کچھ ان کے درمیان درمیان اور کچھ ہسپتال میں اس وقت میں آتی ہیں کہ بیماری نے ان کو لاچار کر دیا ہوتا ہے اور کچھ بیماری ظاہر ہونے کے بغیر ہی چل پڑتی ہیں بعض ان میں ایسی ہوتی ہیں جن کے مخصوص مقام کو ہی سن (بے جان) کیا جاتا ہے یا سارے بدن کو سن کر دیا جا تا ہے اور بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو صرف گولیاں وغیرہ دینے پر اکتفا کیا جا تا ہے لہٰذا ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ حکم ہے اس ڈاکٹر کے لیے بھی جو اس عورت کا علاج کرتا ہے۔
بہر حال بیگانی عورت سے تنہائی شرعی طور پر حرام ہے حتی کہ اس حدیث کی وجہ سے "ما خلا رجل بامرأة إلا كان الشيطانُ ثالثَـهما " [1]
"کوئی مرد کسی عورت سے علیحدہ نہیں ہوتا مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔"
عورت اور ڈاکٹر کے ساتھ کسی کا حاضر ہونا ضروری ہے چاہے اس کا خاوند ہو یا کوئی محرم رشتہ دار مرد اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو سکے تو ان کی قریبی عورتوں کی موجود گی ضروری ہے۔ اگر مذکورہ کوئی بھی نہ ہو اور مرض بھی خطرناک ہو جیسے لیٹ بھی نہ کیا جا سکتا ہوتو کم از کم نرس وغیرہ ضرور موجود ہوتا کہ خلوت محرمہ سے بچنا ممکن ہو سکے۔
چوتھی بات:اگر کم عمر بچی کے حوالے سے سوال ہے تو اگر بچی سات سال کو نہیں پہنچی تو اس کا کوئی پردہ نہیں ہو گا اور اگر سات سال کی ہے تو فقہاء کی وضاحت کے مطابق اس کا پردہ معتبر ہوگا اگرچہ اس کا پردہ اس عورت کے پردے سے الگ ہو گا جو جوکچھ عمر رسیدہ ہو(سماحۃ الشیخ محمد بن آل ابراہیم آل الشیخ )
[1] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث (2165)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب