السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
طالب علم کا سکول میں اپنی کلاس فیلو سے مصافحہ کرنے کا کیا حکم ہے اور جب وہ لڑکی سلام کرنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھائے تو وہ کیا کرے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
لڑکیوں کے ساتھ مخلوط تعلیم ایک سکول یا ایک کرسی پر بیٹھ کر جائز نہیں ہے بلکہ یہ فتنے کا سب سے بڑا سبب ہے،لہذا فتنوں کے سبب سے طالب علم اور طالبہ کے لیے اس طرح کا اشتراک ناجائز ہے۔اور مسلمان کے لیے اجنبی عورت سے مصافحہ کران جائز ہی نہیں اگرچہ وہ ہاتھ کو بڑھائے بھی بلکہ اس کے ذمہ ہے کہ وہ اسے بتائے کہ بیگانے مردوں سے ہاتھ ملانا ناجائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت کے وقت کہا تھا:
"إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ "[1]
"میں عورتوں سےمصافحہ نہیں کرتا"
اورام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
"نہیں اللہ کی قسم! بیعت لیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یہ کہہ کر بیعت لیتے بلاشبہ میں نے تم سے اس پر بیعت لے لی"
اور اللہ عزوجل نے فرمایا:
﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا ﴿٢١﴾...سورة الاحزاب
"یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے"
اور اس لیے کہ عورتوں کے غیر محرموں سے مصافحہ کرنا دونوں طرفوں سے فتنے کے ذریعہ ہے تو اسے چھوڑنا ہی ضروری ہے،البتہ ایسا شرعی اسلام جس میں فتنہ نہ ہو،مصافحہ نہ ہو،شک وریب نہ ہو،نرم بات نہ ہو اورتنہائی کے بغیر اور پردے کے ساتھ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،اللہ عزوجل کے فرمان کی وجہ سے:
﴿يـٰنِساءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيتُنَّ فَلا تَخضَعنَ بِالقَولِ فَيَطمَعَ الَّذى فى قَلبِهِ مَرَضٌ وَقُلنَ قَولًا مَعروفًا ﴿٣٢﴾... سورة الاحزاب
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو "
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عورتوں پر جو اشکال ہوتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسلام کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشکل امور میں فتویٰ پوچھ لیتیں۔ایسے ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے بھی اپنے اوپر اشکال کی صورت میں پوچھ لیا کرتی تھیں،البتہ عورت کا دیگر عورتوں اور اپنے محرم رشتہ دار مردوں،مثلاً اپنے باپ،بھائی اور چچا وغیرہ سے مصافحہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح سن النسائی رقم الحدیث(4181)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب