سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(498) یکبارگی کی تین طلاقیں

  • 1956
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1365

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے مورخہ ۹۱۔۱۔۲۲ کو اپنی زوجہ کو ایک ہی مجلس میں یکبارگی تین طلاقیں دے دی تھیں۔ اب اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہے جبکہ بیوی اپنے والدین کے گھر تب سے رہ رہی ہے ۔میری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ’’مسئلہ رجوع‘‘ واضح کیجئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آ پ کی مسئولہ صورت میں ایک طلاق واقع ہو چکی ہے کیونکہ یکبارگی تین طلاقیں ایک طلاق ہوتی ہے صحیح مسلم جلد اول ص۴۷۷ میں ہے:

«عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺ، وَأَبِیْ بَکْرٍ ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَةٌ»(الحديث)

تین طلاقیں رسول اللہﷺاور ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دو سال ایک ہی طلاق ہوتی تھی۔

ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع بلا نکاح درست ہے

﴿وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنۡ أَرَادُوٓاْ إِصۡلَٰحٗاۚ﴾--بقرة228

’’اور خاوند ان کے بہت حقدار ہیں ساتھ پھیر لینے ان کے کے بیچ اس کے اگر چاہیں صلح کرنا‘‘ الآیۃ اور ایک طلاق کے بعد عدت گذر جائے تو اسی بیوی سے نیا نکاح درست ہے

﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾--بقرة232

’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں عدت اپنی کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کے‘‘الآیۃ۔ صورت مسئولہ میں طلاق ۹۱ میں دی گئی اب ۹۹ ہے ظاہر ہے عدت تو گذر چکی ہے لہٰذا میاں بیوی اب باہمی رضامندی کے ساتھ شروط نکاح کی پابندی میں نیا نکاح کر سکتے ہیں۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

طلاق کے مسائل ج1ص 343

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ