السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورتوں کامردوں کےساتھ کرم کرنے کے حوالے سے اسلام کا کیا نظریہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات تو یقینی ہے کہ کام کے لیے عورت کا مردوں کے میدان میں نکلنا مذموم اختلاط ہے جو تنہائی کی طرف لے جاتا ہے۔یہ انتہائی خطرناک معاملہ ہے جس کے بعد پھر خطرات ہیں،اور اس کے نتائج بھی تلخ اور برے ہیں۔یہ شریعت کے ان احکام سے ٹکراتا ہے جو عورت کو اپنے گھر میں رہنے کا پابند کرتے ہیں،اور ان کاموں کو انجام دینے کی تعلیم دیتے ہیں جو عورتوں کے لیے مخصوص اور ان کی فطرت کے موافق ہیں،اور مرض کی بجا آوری بچا آوری میں وہ مردوں کے اختلاط سے دور رہتی ہیں۔
اجنبی عورت سے علیحدگی ،اس کی طرف دیکھنے اور حرام کاموں کی طرف لے جانے والے وسائل کی حرمت کے حوالے سے کچھ دلائل ہیں جو فیصلہ کن اور پختہ ہیں ،جو اس اختلاط کو حرام قرار دیتے جس کا انجام خطرناک اور ناپسندیدہ ہے،ان میں سے اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ وَأَقِمنَ الصَّلوٰةَ وَءاتينَ الزَّكوٰةَ وَأَطِعنَ اللَّهَ وَرَسولَهُ إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذكُرنَ ما يُتلىٰ فى بُيوتِكُنَّ مِن ءايـٰتِ اللَّهِ وَالحِكمَةِ إِنَّ اللَّهَ كانَ لَطيفًا خَبيرًا ﴿٣٤﴾... سورةالاحزاب
"اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو،اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو،اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کردے اے گھر والو!اور تمھیں پاک کردے خوب پاک کرنا۔اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو،بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین ،پوری خبر رکھنے والا ہے۔"
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥٩﴾... سورة الاحزاب
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکالیا کریں یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا،نہایت رحم والا ہے۔"
اور اللہ ذوالجلال نے فرمایا:
﴿قُل لِلمُؤمِنينَ يَغُضّوا مِن أَبصـٰرِهِم وَيَحفَظوا فُروجَهُم ذٰلِكَ أَزكىٰ لَهُم إِنَّ اللَّهَ خَبيرٌ بِما يَصنَعونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَوٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ أُولِى الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَروا عَلىٰ عَورٰتِ النِّساءِ وَلا يَضرِبنَ بِأَرجُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ وَتوبوا إِلَى اللَّهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾... سورة النور
"مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے (30) مسلمان عورتوں سے کہو کہ وه بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہرہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں، اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیده زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ (31)
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ذٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ...﴿٥٣﴾... سورةالاحزاب
"اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمھارےدلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔"
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"( إياكم والدخول على النساء ) يعني الأجنبيات قيل يا رسول الله صلي الله عليه وسلم أفرأيت الحموا فقال : ( الحمو الموت )"[1]
"عورتوں پر داخل ہونے سے بچو(یعنی بیگانی عورتوں سے) ،کہاگیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! دیور کے بارے میں کیا خیال ہے توفرمایا:"دیور موت ہے۔"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر بیگانی عورت سے خلوت اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور فرمایا:
"فإن ثالثهما الشيطان"[2]
"ان کا تیسرا شیطان ہوتاہے"
چنانچہ خرابی کے ذریعے کو بند کرنے،گناہ کے دروازے کو بند کرنے،برائی کے اسباب کو کاٹنے اور شیطان کے پروپیگنڈوں سے مرد وزن کو بچانے کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بلا محرم سفر کرنے سے منع فرمایا۔اور یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے:
"فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِى إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِى النِّسَاءِ"[3]
"دنیا اور عورتوں کے فتنے سے بچو،بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کے معاملے میں تھا۔"
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ "[4]
"میں نے اپنے بعد ا پنی امت میں عورت سے زیادہ نقصان دہ فتنہ مردوں کے حوالے سے نہیں چھوڑا۔"
یہ آیات اور احادیث اس اختلاط سے دور رہنے کی فرضیت کے حوالے سے راہنمائی کے انداز میں واضح ہیں جو خرابی،خاندانوں کو بدنام کرنے اور معاشروں کو برباد کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔جب ہم کچھ اسلامی ملکوں میں عورتوں کی پستی کو دیکھتے ہیں تو ہم اسے گھر سے نکالےجانے اور اپنے مخالف فطرت کاموں میں لگائے جانے کی وجہ سے رسوا اور کمزور حالت میں پاتے ہیں۔بلاشبہ وہاں کے دانا لوگ اور مغربی ممالک کے دانشور بھی پکارنے لگے ہیں کہ عورت کو اس کی فطری حالت کی طرف لوٹانا ضروری ہے جس پر اللہ نے اسے تخلیق کیا ہے،اور جس ساخت وصلاحیت پر اس کی جسمانی وعقلی ترکیب فرمائی ہے لیکن یہ چیخ وپکار مناسب وقت ہاتھ سے نکل جانے کے بعد ہے۔
عورتوں کو اپنے گھروں میں کام کاج کرنے اور تدریس اور عورتوں سے متعلقہ کام میں ایسی کفایت واستغنا ہے جو انھیں مردوں کے کام کاج کے میدان میں اترنے سے بے پرواہ کرسکتی ہے۔
ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے علاقوں کو دشمنوں کے پروپیگنڈوں اور تباہ کن پلاننگ سے محفوظ رکھے،اور وہ ذمہ داروں کو توفیق دےکہ وہ عورتوں کو دنیاوی اور اخروی لحاظ سے درست کاموں کی تلقین کریں،نیز اپنے پروردگار اور پیدا کرنے والے کے حکم کا نافذ کریں جو ان کی مصلحتوں کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔اور وہ اسلامی علاقوں کے ارباب حکومت کو ہر اس کام کی توفیق دے جس سے ملک اور ملک کے باشندوں کی بھلائی اور دنیا اور آخرت کی درستگی پوشیدہ ہے اوریہ کہ وہ ہمیں،انھیں اور دیگر تمام مسلمانوں کو فتنوں کی گمراہیوں اور ہلاکت کے اسباب سے بچائے رکھے،بس وہی اس کا والی اس پر قادر ہے۔(سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4934) صحیح مسلم ر قم الحدیث(2172)
[2] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث(2165)
[3] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(2742)
[4] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4808)صحیح مسلم رقم الحدیث(2740)
ھذا ما عندي والله اعلم بالصواب