السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنے گھر والوں سے ناراض ہو کر ۳ مارچ ۹۷ء کو علیحدگی اختیار کر لی ۔ اور تقریباً تین ماہ بعد واپس آ کر ۲۶ مئی ۹۷ء اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق دے دی ۔ اور پھر ۱۵ اگست ۹۷ء کو یعنی پہلی طلاق سے کوئی دو ماہ انیس دن بعد رجوع کر لیا پھر ۱۰ ستمبر ۹۷ء کو یعنی رجوع سے کوئی ۲۵ دن بعد دوسری طلاق بذریعہ ڈاک بھجوا دی جسے بیوی نے وصول نہ کیا پھر ۱۷ نومبر ۹۷ء کو بذریعہ یونین کمیٹی طلاق بھجوا دی ، بیوی نے یہ بھی وصول نہ کی اس وقت اس آدمی کو یقین تھا کہ اب طلاق بائن ہو چکی ہے اور میرا بیوی سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔ اس دوران اس آدمی نے بیوی کو ماں بہن بھی کہا ۔ اور برابر اپنے مؤقف پر قائم رہا ۔ آخر جنوری ۹۸ء وہ آدمی کسی مولوی صاحب سے ملا ۔ اور صورتحال سے انہیں آگاہ کیا ۔ انہوں نے کہا ۔ تم اپنی بیوی سے نیا نکاح کر کے اسے اپنی زوجیت میں لا سکتے ہو ۔ چنانچہ انہوں نے ۶ فروری ۹۸ء کو اس آدمی کے ایماء پر تشریف لا کر تجدید نکاح فرما دی۔ اب آپ کی خدمت عالیہ میں گذارش ہے ؟ (۱)یہ طلاق واقع ہو چکی ہے یا نہیں ؟ ذرا وضاحت کے ساتھ تحریر فرمائیں ؟ (۲) مذکورہ نکاح کی شرعاً کیا حیثیت ہے ؟ اور ناکح کا شرعاً کیا حکم ہے ؟ (۳) رجوع سے قبل پہلی ’’طلاق‘‘ کا کیا حکم ہے ؟ وہ کالعدم ہو جاتی ہے یا نہیں ؟ (۴) جو ظہار ہوا اس کی وضاحت فرما دیں کہ کیا حکم ہے ؟
نوٹ : وہ آدمی تجدید نکاح کے بعد اب گومگو کی حالت میں ہے اور وہ تاحال اپنی ’’بیوی‘‘ کو گھر نہیں لایا ادباً پس گذارش ہے مختصر مگر جامع اور باحوالہ جواب باصواب تحریر فرمائیں ۔ استفتاء ہذا کے ساتھ جوابی لفافہ پیش خدمت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) طلاق کے متعلق آپ کے سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ایک آدمی نے ۲۶ مئی ۹۷ء اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین مرتبہ طلاق دے دی پھر ۱۵ اگست ۹۷ء پہلی طلاق سے کوئی دو ماہ انیس دن بعد رجوع کر لیا پھر ۱۰ ستمبر ۹۷ء رجوع سے کوئی ۲۵ دن بعد دوسری طلاق بذریعہ ڈاک بھجوا دی بیوی نے یہ بھی وصول نہ کی پھر ۱۷ نومبر ۹۷ء دوسری طلاق سے ۲ماہ ۷دن بعد تیسری طلاق بذریعہ یونین کمیٹی بھجوا دی بیوی نے یہ بھی وصول نہ کی پھر اس کے بعد کوئی دو ماہ بیس دن ۶ فروری کو اس آدمی نے اپنی بیوی سے تجدید نکاح فرما دی تیسری طلاق کے بعد اور تجدید نکاح سے قبل اس آدمی نے اپنی بیوی کو ماں بہن بھی کہا‘‘ اس پر آپ نے چار سوال مرتب فرمائے ہیں جن کے جواب ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں وباﷲ التوفیق ۔
(1) ۲۶ مئی ۹۷ء کو ایک ساتھ دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق واقع ہو چکی ہے صحیح مسلم الحدیث ص۴۷۷ ج۱میں ہے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
«کَانَ الطَّلاَقُ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِﷺوَأَبِیْ بَکْرٍ وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلاَفَةِ عُمَرَ طَلاَقُ الثَّلاَثِ وَاحِدَة»
دوسری طلاق بعد از رجوع ۱۰ ستمبر ۹۷ء والی بھی واقع ہو چکی ہے بیوی کا طلاق نامہ کو وصول نہ کرنا طلاق واقع ہونے سے مانع نہیں تو اس صورت مسئولہ میں دو طلاقیں تو واقع ہو چکی ہیں رہی ۱۷ نومبر ۹۷ء کو دی ہوئی تیسری طلاق تو اگر وہ دوسری طلاق سے رجوع کے بعد ہے تو وہ بھی بالاتفاق واقع ہو گئی ہے تو اب ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ والی نوعیت ہے اور اگر یہ ۱۷ نومبر ۹۷ء والی تیسری طلاق دوسری طلاق سے رجوع کیے بغیر ہے تو اس تیسری طلاق کے واقع ہونے میں اختلاف ہے جو علماء کرام طلاق کے بعد طلاق کے واقع ہونے کے لیے درمیان میں رجوع کو شرط سمجھتے ہیں ان کے نزدیک یہ تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی اور جو شرط نہیں سمجھتے ان کے نزدیک یہ تیسری طلاق واقع ہو چکی ہے اور ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ﴾ والی کیفیت پیدا ہو چکی ہے ۔
(2)اس آدمی کا اپنی بیوی سے نکاح جدید ان کے نزدیک شرعاً درست ہے جو طلاق کے بعد طلاق کے وقوع کے لیے درمیان میں رجوع کو شرط سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک صورت مذکورہ میں طلاقیں فقط دو ہی واقع ہوئی ہیں بشرطیکہ دوسری اور تیسری طلاق کے درمیان رجوع نہ ہوا ہو اور عدت گذر چکی ہو اورجو طلاق کے بعد طلاق کے وقوع کے لیے درمیان میں رجوع کو شرط نہیں سمجھتے ان کے نزدیک صورت مسئولہ میں تینوں طلاقیں چونکہ واقع ہو چکی ہیں اس لیے اس آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ مذکورہ بالا نکاح جدید شرعاً درست نہیں حرام ہے خواہ اس نے دوسری طلاق کے بعد رجوع کیا ہے خواہ رجوع نہیں کیا یاد رہے دونوں قولوں کے مطابق یہ جواب تب ہے جبکہ اس نکاح جدید مذکور میں اس طلاق والے معاملے کے علاوہ دیگر شروط نکاح مثلاً عورت کی رضا ولی کی اجازت وغیرہ موجود ہوں۔
(3) رجوع در عدت سے قبل طلاق پہلی ہو خواہ دوسری شمار کی جائے گی کالعدم نہیں ہو گی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِۖ فَإِمۡسَاكُۢ بِمَعۡرُوفٍ أَوۡ تَسۡرِيحُۢ بِإِحۡسَٰنٖۗ﴾--بقرة229
نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُۥۗ﴾--بقرة230
(۴) جن کے نزدیک صورت مسئولہ میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں ان کے نزدیک یہ ظہار کالعدم ہے اور جن کے نزدیک طلاقیں دو واقع ہوئی ہیں ان کے نزدیک اس ظہار کا اعتبار ہو گا بشرطیکہ وہ ظہار عدت ختم ہونے سے قبل قبل ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب