السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں ایک پریشان نوجوان لڑکی ہوں۔ایسے خاندان میں زندگی گزار رہ ہوں جن پر شعبدہ بازی کے خیالات کا غلبہ ہے،میں پردے کی پابند تھی مگر مجھے سخت حملے اور اپنے خاندان کے استہزا کا سامنا کرنا پڑا جو مارنے کی حد کو پہنچ گیا اور مجھے گھر سے نکلنے سے روک دیا گیا،چنانچہ میں پردہ اتار کر ایک چادر پہننے کی طرف مجبور ہوگئی لیکن میرا چہرہ ننگا ہوتاہے،لہذا میں کیا کروں؟کیا میں گھر چھوڑ دوں جبکہ انسانی درندوں کی بہت کثرت ہے؟میں فائدے کی امیدوار ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ سوال دو پہلوؤں کو شامل ہے:
1۔جس نوجوان لڑکی کے ساتھ یہ بُرا سلوک ہوتا ہے اس کے گھر والوں کا معاملہ،یہ ایک ایسی قوم ہے کہ یا تو حق سے بے علم ہیں یا وہ اس سے تکبر کا شکار ہیں۔اور یہ ایک درندگی والا سلوک ہے۔کیونکہ ان کو اس بارے میں کوئی حق حاصل نہیں،لہذا پردہ نہ تو کوئی خامی ہے اور نہ ہی کوئی بری حرکت ہے۔انسان تو شرعی قوانین کے معاملے میں آزاد ہے،لہذا اگر تو وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ عورت کے لیے پردہ واجب ہے تو ان کے لیے یہ واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے کہ یہ کتاب وسنت سے ایک واجب حکم ہے لیکن اگر وہ لوگ واقف ہونے کے باجود اعراض واستکبار کرتے ہیں تو پھر یہ بہت بڑی نافرمانی ہے،جیسے کسی(شاعر) نے کہا ہے۔
فإن كنت لا تدرى فتلك مصيبة
وإن كنت تدرى فالمصيبة أعظم
اگر تو ناواقف ہے تو یہ(لاعلمی) ایک مصیبت ہے ،اور اگر تو واقف ہے تو تب بہت بڑی آفت ہے۔"
2۔دوسرا پہلو:وہ اس نوجوان لڑکی کے حوالے سے ہے تو ہم اسے کہتے ہیں کہ اس کے ذمے ہے کہ وہ حتیٰ الامکان اللہ سے ڈرے۔اگر اپنے گھر والوں کو بتائے بغیر اس کے لیے پردے کا استعمال ممکن ہے تو ایساکرلے،لہذا اگر وہ اسے ماریں اور اسے حجاب وپردہ اتارنے پر مجبور کریں تو اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا،اللہ عزوجل کے فرمان کی وجہ سے:
﴿مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعدِ إيمـٰنِهِ إِلّا مَن أُكرِهَ وَقَلبُهُ مُطمَئِنٌّ بِالإيمـٰنِ وَلـٰكِن مَن شَرَحَ بِالكُفرِ صَدرًا فَعَلَيهِم غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُم عَذابٌ عَظيمٌ ﴿١٠٦﴾... سورة النحل
"جو شخص اللہ کے ساتھ کفرکرے اپنے ایمان کے بعد،سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پرمطمئین ہو۔اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔"
نیز اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـٰكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴿٥﴾... سورةالاحزاب
اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی،اور لیکن جو تمہارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بے حد بخشنے والا ،نہایت رحم کرنے والا ہے۔"
بلکہ اسے حتی الوسع اللہ سے ڈرنا چاہیے اور جب اس کے گھر والے ہی عورت پر پردے کے وجوب کی حکمت کو نہیں سمجھتے تو انھیں ہم عرض کرتے ہیں کہ حقیقت میں ایماندار پر یہی ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے پیغمبر کے حکم کا فرمانبردار ہوجائے،چاہے وہ اس حکم کی حکمت کو جان سکے یا نہ جان سکے کیونکہ دراصل فرمانبرداری ہی حکمت کا دوسرا نام ہے اللہ عزوجل کافرمان ہے:
﴿وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَسولُهُ أَمرًا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَةُ مِن أَمرِهِم وَمَن يَعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ فَقَد ضَلَّ ضَلـٰلًا مُبينًا ﴿٣٦﴾... سورة الاحزاب
"اورکبھی بھی نہ کسی مومن مرد کاحق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو،اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کرے سو یقیناً وہ گمراہ ہوگیا واضح گمراہ ہونا۔"
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا گیا کہ حیض والی عورت کا کیسا انداز ہے کہ روزے کی قضا دیتی ہے اور نماز کی قضا نہیں دیتی؟تو انہوں نے کہا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حیض آیا کرتا تھا تو ہمیں روزے کی قضا کاحکم تو ہوتا اور نماز کی قضا کاحکم نہیں ہوتا تھا،چنانچہ انھوں نےمحض حکم کو ہی حکمت قرار دیا جبکہ پردے کی حکمت تو ویسے بھی ظاہرہے کیونکہ عورت کی خوبیوں کو ظاہرکرنا فتنے کا سبب ہے اور جب فتنہ ہوگاتو گناہ اور بے حیائی بھی ممکن ہے ،اور جب گناہوں اور بے حیائیوں کا عروج ہوگا تو یہی تباہی اور بربادی کی بنیاد ہوگا۔(فضیلۃا لشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب