السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چہرہ ڈھانپنا کیسے کس سے اور کس پر واجب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اجنبی مرد سے چہرہ چھپانا ضروری ہے دو میں سے صحیح قول کے مطابق اجنبی وہ ہے جو عورت کا غیر محرم ہو چاہے وہ اجنبی چچا اور ماموں کا بیٹا ہو یا پڑوسی وغیرہ کا ہوکیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان اللہ کے پیغمبر کے زمانے اور اس کے بعد والے مسلمانوں کو خطاب کر رہا ہے۔
﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ذٰلِكُم أَطهَرُ لِقُلوبِكُم وَقُلوبِهِنَّ ...﴿٥٣﴾... سورةالاحزاب
"اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمھارےدلوں اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔"
یہ حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور ان کے علاوہ تمام ایماندارعورتوں کے لیے عام ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَفنَ فَلا يُؤذَينَ...﴿٥٩﴾... سورة الاحزاب
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکالیا کریں یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔"
جلباب وہ ہے جسے کپڑوں کے اوپر سر اور بدن پر رکھا جا تا ہو اور یہی ہے جس سے عورت سر چہرہ اور سارا بدن ڈھانپتی ہے۔ اور جسے صرف سر پر رکھا جائے اسے خمار کہا جا تا ہے ۔لہٰذا عورت کو اپنے سر،چہرے اور سارے بدن پر کپڑوں کے اوپر سے جلباب اوڑھنا چاہیے جیسا کہ گزرچکا ہے۔
اللہ عزوجل فرماتے ہیں۔
﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِهِنَّ وَيَحفَظنَ فُروجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ مِنها وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورةالنور
"اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے۔
عبد اللہ بن مسعود اور ایک جماعت نے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کی تفسیر ظاہری لباس سے کی ہے اور کچھ لوگوں نے اس کی تفسیر چہرے اور ہتھیلیوں سے کی ہے لیکن پہلی بات زیادہ درست ہے کیونکہ یہ سابقہ دو آیتوں اور شرعی دلائل کے موافق ہے اور کچھ مفسرین نے چہرے اور ہتھیلیوں والی تفسیر کو اس انداز پر رکھا ہے کہ یہ پردے کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے کی ہے کیونکہ شرع اسلام میں عورت اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں مردوں کے لیے ظاہر ہی رکھا کرتی تھی تو پردے والی آیت نازل ہونے پر ان کو اس(عمل) سے باز کردیا گیا،لہذا اُن پر چہرہ اور ہتھیلیاں بھی چھپانا تمام حالات میں ضروری قرار دیاگیا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
﴿وَليَضرِبنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورةالنور
"اور اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔"
خمر خمار کی جمع ہے۔جس سے سر اور اس کا ارد گرد چھپایا جاتاہے اسے خمار کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے ماتحت(اعضاء) کو چھپاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شراب کو خمر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی عقلوں کو ڈھانپتی اور تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے۔اور "جیب"وہ خلا ہے جس سے سر باہر نکالا جاتا ہے تو لہذا جب(عورت) دوپٹا اپنے چہرے اور سر پر ڈالتی ہے تو وہ گریبان کو بھی چھپا لیتاہے تو چونکہ وہاں سینے کا کچھ حصہ بھی ہوتاہے تو وہ اسے بھی چھپالیتا ہے،پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ...﴿٣١﴾... سورة النور
"اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں کے لیے۔"
اور زینت چہرے اور سارے بدن کو شامل ہے،لہذا عورت پر اس خوبصورتی کو چھپانا بھی ضروری ہوگا تاکہ نہ وہ کسی کو فتنے میں ڈالے اور نہ خود فتنے میں مبتلا ہو۔صحیحین میں وارد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت بھی مذکورہ توجیہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے،چنانچہ وہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے صفوان بن معطل کی آواز سنی تو میں نے اپنا چہرہ چھپالیا جبکہ اس نے مجھے پردے سے پہلے دیکھا بھی ہواتھا۔
لہذا اس سے معلوم ہوا کہ پردے والی آیت کے نازل ہونے کے بعد عورتیں چہرے کو چھپانے کی پابند تھیں،اور آیت کریمہ میں پردے سے مراد بھی یہی ہے،جیسا کہ یہ فرمان الٰہی ہے:
﴿وَإِذا سَأَلتُموهُنَّ مَتـٰعًا فَسـَٔلوهُنَّ مِن وَراءِ حِجابٍ ...﴿٥٣﴾... سورة الاحزاب
"اور جب تم ان سے کوئی سامان مانگو تو ان سے پردے کے پیچھے سے مانگو۔"
لیکن جو امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں فرمایا تھا:
"إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتْ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلا هَذَا وَهَذَا"[1]
"جب عورت یقینی طور پر بلوغت کو پالیتی ہے تو اس سے کسی(عضو) کا ظاہر ہونا جائز نہیں مگریہ اور یہ(اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔)"
یہ حدیث ضعیف ہے ۔بہت ساری خامیوں کی وجہ سے اسے دلیل بنانا جائز ہی نہیں،ایک تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کرنے والے اور ان کے درمیان انقطاع ہے اور دوسرا اس کے کچھ راوی بھی کمزوری ہیں جیسے سعید بن بشیر،اور قتادہ کی تدلیس عن سے بیان کرنے کی صورت میں،اور اس کے شرعی دلائل(آیات واحادیث) کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی جو کہ اس بات کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ عورت کو اپنا چہرہ،ہتھیلیاں اور تمام جسم چھپانا ضروری ہے۔
اور اگر مذکورہ حدیث درست بھی تسلیم کی جائے تو اس کی پردے والی آیت کے نازل ہونے سے پہلے سمجھا جائے گا دلائل میں تطبیق کا انداز اختیار کرتے ہوئے،اللہ ہی سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرنے کی توفیق دینے والا ہے۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث(4104)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب