السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رضاعی باپ کی دوسری بیوی اس کے رضاعی بیٹے کے لیے محرم ہوگی جس نے اس کی پہلی بیوی کا دودھ پیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں اہل علم کا اختلاف ہے ،اکثر علماء،بشمول ائمہ اربعہ اور ان کے متبعین ،کہتے ہیں:رضاعی باپ کی بیوی نسبی باپ کی بیوی کی طرح ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ نسبی باپ کی بیوی اس کے بیٹے کے لیے حرام ہے ،یعنی اگر آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس کے دوسری بیوی سے کچھ لڑکے ہوں تو یہ نئی بیوی ان لڑکوں کے لیے حرام ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ ...﴿٢٢﴾... سورةالنساء
"اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں۔"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا خیال یہ ہے کہ رضاعی باپ کی بیوی نسبی باپ کی بیوی کی طرح نہیں ہے۔اور بلاشبہ وہ اسکے محرمات میں سے نہیں ہے۔جو اس مسئلے کی تفصیل معلوم کرنا چاہتا ہو وہ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب"زاد المعاد" کامطالعہ کرے ،بلاشبہ اس میں ایسی عمدہ بحث ہے جس کو پڑھنے سے وہ قول قوی محسوس ہوگا جس کی طرف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ گئے ہیں۔
اگر کوئی شخص جمہور کے قول میں درمیانی راہ اختیار کرنا چاہے تو وہ اس مرد کے لیے اس عورت کے نکاح کو جائز نہ کرے،اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق اس عورت کو مرد کے محرمات میں سے شمار نہ کرے۔اور اگر وہ احتیاطی موقف چاہے تو یہی اس کے لیے پسندیدہ صورت ہوگی کیونکہ اس محتاط موقف کی تائید سنت سے بھی ہوتی ہے۔
وہ اس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد بن زمعہ کے درمیان زمعہ کے لڑکے کے متعلق تنازع کھڑا ہوا تو سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا ہے۔جس کے متعلق اس نے ہدایت کی تھی،لہذا یہ اس کا بیٹا ہے اور عبد بن زمعہ نے کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرا بھائی ہے جو میرے باپ کی لونڈی سے اس کے بستر پر پیدا ہواہے۔سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی شباہت کو دیکھئے،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو دیکھا تو وہ عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مشابہت رکھتا تھا،اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد بن زمعہ کے حق میں فیصلہ دیا اور فرمایا:
"هو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش وللعاهر الحجر"[1]
"اے عبد بن زمعہ!یہ تمہارے لیے ہے۔بچہ صاحب فراش کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو،جو امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین میں سے ہیں،فرمایا:
"وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَة" "اے سودہ! اس سے پردہ کرو۔"
باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو ان کا بھائی قرار دیا مگر عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ واضح مشابہت کی وجہ سے ان کوپردہ کرنے کا حکم دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم احتیاط پر مبنی حکم ہے،لہذا پردہ کرنا مشابہت کی وجہ سے ہے اور ا س کے بھائی ہونے کافیصلہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ان کےباپ کے بستر پر پیدا ہوا۔
اسی طرح مذکورہ صورت میں عورت رضاعی باپ کی بیوی ہے ۔اگر کوئی کہنے ولا کہے کہ ہم احتیاطی حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مرد کے لیے اس عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے تو ہم اس لمحے یہ بھی کہیں گے کہ وہ عورت اس کی محرم بھی نہیں ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(1948) صحیح مسلم رقم الحدیث(1457) مح
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب