السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سائل کہتا ہے:جب عورت شادی شدہ ہو اور اس کا خاوند نماز نہ پڑھتا ہوتوکیا بیوی کو اس سے علیحدگی اختیار کرلینا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب عورت شادی شدہ ہو اوراس کا خاوند نہ باجماعت نماز ادا کرتا ہو اور نہ بے جماعت تو عورت کا اس سے نکاح فسخ ہوجائےگا۔اور وہ اس کی بیوی نہ رہے گی۔اور اس خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس سے لذت وخدمت لے جو مرد اپنی بیوی سے لیا کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرد کے لیے اجنبی بن گئی ہے،لہذا اس صورت میں عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے گھر و الوں کے پاس(میکے) چلی جائے اور حتی الوسع اس شخص سے جان چھڑانے کی کوشش کرے جس نے اسلام لانے کے بعد کفر کیا ہے۔العیاذ باللہ۔
پس اس بنا پر میں کہتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ عورتیں میری بات کو سن رہی ہیں کہ جونسی عورت کا خاوند نماز نہ پڑھتا ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لیے بھی اس کے پاس ٹھہرے اگرچہ اس کے ہاں اس مرد سے اولاد بھی ہو کیونکہ اس حالت میں عورت کی اولاد اس کو ملے گی،ان کے باپ کا ان کی پرورش میں کوئی حق نہیں ہوگا،(اس لیے کہ) کافر کو مسلم پر پرورش کا کوئی حق حاصل نہیں ہے لیکن اگر اللہ اس کے خاوند کو ہدایت دےدے اور وہ اسلام کی طرف لوٹے اور نماز پڑھنے لگے تو پھر وہ عورت عدت کےاندر اندر اس خاوند کی طرف پلٹ جائے اور اگر اس کی عدت پوری ہوجائے اس سے پہلے کہ وہ نماز کی ادائیگی کرنے لگے تو عورت کو اختیار ہے کہ جہاں چاہے شادی کرلے۔
اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ مرتد آدمی کی بیوی جب اپنی عدت مکمل کرچکے تو وہ عقد جدید کے بغیر اپنے خاوند کی طرف نہیں پلٹ سکتی جبکہ وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے۔(فضیلۃا لشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب