السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اڑھائی سال قبل میری عمر چالیس سال تھی،میں دین اسلام کی تعلیمات کی پابندی کرنے والی ہوں۔مجھے ایک ایسے نوجوان کی طرف سے پیغام نکاح ملا جس نے ایک دعویٰ کرتے ہوئے کہا:تو میری بیوی ہے،اور دلیل یہ پیش کرتاہے کہ بعض اہل نے ایسی شادی کرنے کی اجازت دی ہے جس کو بوقت عقد تو مشہور نہ کیا جائے ،بعد میں اس کا اعلان کردیا جائے،نیز امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب پر اعتماد کرتے ہوئے کہ انھوں نے فرمایا:"جس نے مشہور کیے بغیر شادی کرلی اس کو رجم نہیں کیا جائے گا۔"تو اس شادی کی کیا حکم ہے؟خاص طور پر کہ میں اکیلی ہی زندگی گزار رہی ہوں اور میں نے اس کواپنے پاس آنے سے منع کردیا ہے لیکن وہ کہتاہے :تو میری بیوی ہے تو مجھے کیسے روکتی ہے؟جب میں نے اس کو گواہ اور اپنے باپ کو لانے کو کہا تو اس نے یہ دعویٰ کیاکہ اس کے پاس دو گواہ ہیں جوفی الوقت گواہی کو چھپا رہے ہیں تا کہ اس کی (پہلی) بیوی کو خبر نہ ہو،اور وہ چاہتا ہے کہ بعد میں خود ہی اس کو اس سے آگاہ کرے گا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولی کی اجازت کے بغیر شادی درست نہیں ہے اور کسی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ کسی عورت سے ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرے۔وہ ولی اس عورت کے عصبات ہیں جو شرعی ترتیب کے اعتبار سے جو سب سے قریبی ہے وہ مقدم ہوگا اس کے بعد جو باقیوں سے زیادہ قریبی ہو۔اور بغیر ولی کے شادی فاسد ہے،صحیح اور درست نہیں ہے ،کتاب وسنت اسی پر دلالت کرتے ہیں۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا...﴿٢٢١﴾... سورةالبقرة
"اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وه ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ لائیں،"
خاوند کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ"
اور بیوی کے متعلق فرمایا:
"وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ"
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنانکاح ولی کی اجازت کے بغیر خود نہیں کرسکتی۔
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأَنكِحُوا الأَيـٰمىٰ مِنكُم وَالصّـٰلِحينَ مِن عِبادِكُم ...﴿٣٢﴾... سورة النور
"اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کردو اور اپنے غلاموں سے جونیک ہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا: "وَأَنكِحُوا" بے نکاحوں کی شادی کرانے کا خطاب اولیاء کے ساتھ ہے۔نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلا تَعضُلوهُنَّ أَن يَنكِحنَ أَزوٰجَهُنَّ إِذا تَرٰضَوا بَينَهُم بِالمَعروفِ...﴿٢٣٢﴾... سورة البقرة
"پس وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انھیں اس سے نہ روکو کہ وہ اپنے خاوندوں سے نکاح کرلیں جب وہ آپس میں اچھے طریقے سے راضی ہوجائیں۔"
اگر ولی کی اجازت صحت نکاح میں شرط نہ ہوتو ان کے روکنے کا کوئی اثر ہی نہیں ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا نكاح إلا بولي "[1]
" ولی کے بغیر نکاح درست نہیں ہے۔"
نیز فرمایا:
"لا تُنْكَحُ الأيِّمُ حَتى تستأمر، وَلا تُنْكَحُ البِكْرُ حَتًى تُستأذَن"[2]
"بیوہ کی شادی اس کے مشورے کے بغیر اور کنواری کی شادی اس کی اجازت کے بغیر نہ کی جائے۔"
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کی اجازت کا کیسے پتا چلے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان تسكت)یعنی وہ اجازت طلب کرتے وقت خاموشی اختیار کرے گی۔
سو اس بنا پر ہم کہتے ہیں:یہ آدمی جس نے مذکورہ عورت سے اپنے اس قول کے ساتھ یعنی تو میری بیوی ہے۔ملنے کا بہانہ اور حیلہ بنایاہے۔اس کے اس قول سے یہ عورت اس کی بیوی نہیں بنے گی بلکہ ولی کی اجازت ضروری ہے۔
رہانکاح کا مشہور کرنا اور اس کااعلان کرنا تو اس میں علماء کا اختلاف ہے۔بعض اہل علم تو اس طرف گئے ہیں کہ نکاح کااعلان کرناضروری اور لازمی ہے،اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ نکاح کامشہور ہونا ہی اعلان سے کافی ہے۔ بہرحال جو بھی علماء کاموقف ہے،بلاشبہ اس شخص کا دعویٰ کہ مذکورہ سائلہ اس کی بیوی ہے یہ ایک جھوٹا دعویٰ ہے جس کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں ہے ،لہذا اس عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے اولیاء کے پاس چلی جائے تاکہ وہ اس کو اس شخص سے بچائیں۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(2085)
[2] ۔صحیح البخاری رقم ا لحدیث(4843) صحیح مسلم رقم الحدیث(1419)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب