السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گھر میں کسی بات پر لڑائی ہو جاتی ہے بندہ کہتا ہے اچھا اگر اب دوبارہ میں نے فلاں کام کیا تو میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں گا والد صاحب ڈانٹتے ہیں تو کہتا ہے میری طلاق ہے طلاق جتنی بار منہ سے نکل سکا مگر عورت یہ الفاظ نہیں سنتی بعد میں دوسروں نے عورت سے پوچھا تواس نے کہا کہ میں نے نہیں سنا ہے باقی ہم تو ٹھیک ٹھاک ہیں چونکہ جہالت کا دور دورہ تھا اس لیے نہ کسی نے یہ بات کسی اہل علم کو بتائی اور نہ خود محسوس کیا۔ رہتے رہے اسی بے دلی کے ساتھ اب پھر بندہ باہر سے گھر آیا تو جھگڑا ہو رہا تھا پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے جواب میں کہا کہ کچھ نہیں اس نے کہا کہ ہر وقت جھگڑا ہے میں طلاق دے دوں گا پھر والد صاحب نے ڈانٹا اور روکنے کے لیے اٹھے مگر اس نے کہہ دیا کہ میں نے چھوڑی ہوئی ہے چھوڑی ہوئی تین مرتبہ۔ مگر بیوی نے یہ باتیں نہیں سنیں بعد میں عورت کو بتایا گیا اور علیحدہ کر لیا گیا ۔ اب بندہ نادم ہے قرآن واحادیث کی رو سے بتائیں کہ کیا اب بندہ عورت واپس لا سکتا ہے یا کہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہو چکی ہے صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے تین طلاق رسول اللہﷺ کے عہد ودور میں ایک ہی طلاق ہوا کرتی تھیں آپ کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ عدت بھی گزر چکی ہے لہٰذا اب آپ اپنی اس مطلقہ بیوی کے ساتھ نیا نکاح کر سکتے ہیں قرآن مجید میں ہے :
﴿وَإِذَا طَلَّقۡتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَبَلَغۡنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعۡضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحۡنَ أَزۡوَٰجَهُنَّ إِذَا تَرَٰضَوۡاْ بَيۡنَهُم بِٱلۡمَعۡرُوفِۗ﴾--بقرة232
’’اور جب طلاق دو تم عورتوں کو پس پہنچیں اپنی عدت کو پس مت منع کرو ان کو یہ کہ نکاح کریں خاوندوں اپنے سے جب راضی ہوں آپس میں ساتھ اچھی طرح کےِ‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب