السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت نے اپنے خاوند کو اپنے کل حق مہر سے بری کردیا پھر اس کے بعد خاوند نے اپنے متعلق یہ گواہی دی کہ بلا شبہ اس نے اپنی مذکورہ بیوی کو حق مہر سے بری کرنے کی بنیاد پر طلاق دے دی براءت طلاق سے مقدم تھی کیا طلاق صحیح ہے؟ اور اگر طلاق واقعی ہوگئی ہے تو کیا رجعی طلاق ہو گی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر دونوں میاں بیوی نے اس پر اتفاق کیا تھا کہ بیوی اپنا حق مہر خاوند کو ہبہ کر کے اس کواس سے بری کردے گی اور خاوند اس کو طلاق دے گا پھر بیوی کوبری کردیا اور خاوند نے اس کو طلاق دے دی تو یہ طلاق بائن ہوگی اسی طرح اگر خاوند نے بیوی کو کہا مجھے بری کردو میں تمھیں طلاق دے دوں گا ۔یا یوں کہا:اگر تومجھے بری کر دے تو میں نے تجھے طلاق دے دی یا اس قسم کی دیگر عام اور خاص عبارات بولیں جن سے یہ مفہوم ہوتا ہو کہ خاوند نے بیوی سے اس شرط پر براءت طلب کی کہ وہ اس کو طلاق دے دے گا لیکن اگربیوی نے خاوند کو اس طرح بری کیا کہ اس براءت کے طلاق سے کوئی تعلق نہیں تھا پھر اگر خاوند نے اس کے بعد اس کو طلاق دی تو یہ ایک رجعی طلاق ہو گی۔
لیکن وہ براءت میں رجوع کر سکتی ہے اگر ممکن ہو وہ اس طرح کہ براءت اس طرح کی ہو جو عادتاً عورتوں سے صادر نہیں ہو تی سوائے اس کے کہ مرد اس کو اس کی رضا کے خلاف اپنے پاس روک کر رکھے یا اس ڈر کی وجہ سے کہ وہ اس کو طلاق دے دے گایا اس پر ایک اور عورت سے شادی کرلے گا یا اس طرح کی کوئی اور وجہ ہو جس سے عورت مجبور ہو کر براءت کا علان کرے۔
لیکن اگر اس نے خوش دلی کے ساتھ مطلق طور پر براءت کا اعلان کیا ہو اور اس طرح کہ براءت کی ابتداء عورت کی طرف سے ہو۔ مرد کی طرف سے کسی سبب اور عوض کے بدلے میں نہ ہو تو اس سے عورت رجوع نہیں کر سکتی ۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب