سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(592) خلع کے ایک طلاق شمار ہونے اور اس میں لفظ طلاق اور نیت کا حکم

  • 19440
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 959

سوال

(592) خلع کے ایک طلاق شمار ہونے اور اس میں لفظ طلاق اور نیت کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خلع تین طلاقوں میں سے ایک طلاق شمار ہو گی ؟کیا اس کے لیے شرط ہے کہ یہ لفظ طلاق اور اس کی نیت کے بغیر ہو؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں سلف و خلف میں اختلاف کافی مشہور ہے۔

پہلا قول : امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور ان کے شاگردوں کا ظاہر مذہب یہ ہے کہ خلع فرقت بائنہ اور فسخ نکاح ہے اگر کوئی دس مرتبہ بھی اپنی بیوی کو خلع دے تو تین طلاقوں میں سے کوئی طلاق نہ ہوگی بلکہ مرد کو اس سے پہلے کہ وہ عورت کے علاوہ کسی اور شخص سے شادی کرے اس سے عقد جدید کرنے کا حق ہوگا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کے دو قولوں میں سے ایک قول یہ ہے اور ان کے شاگردوں میں سے ایک جماعت نے بھی اسی موقف کو اختیار کیاہے اور یہی قول ہے جمہور فقہائے حدیث کا جیسے کہ اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  ، ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ  ،داؤد بن منذر رحمۃ اللہ علیہ  ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ   ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ان کے شاگردوں طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اورعکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بھی یہ قول ثابت ہے۔

دوسراقول : یہ ہے کہ خلع طلاق بائن ہے اور تین طلاقوں سے شمار ہو گا ۔ سلف میں سے اکثر کا یہی قول ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   مالک اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کا ان کے آخری قول کے مطابق بھی ان کا یہی مذہب ہے اور یہ بھی کہا جا تا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   کا یہ نیا موقف ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   سے بھی ایک دوسری روایت کے مطابق یہی قول مروی ہے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ   اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بھی یہی قول منقول ہے لیکن امام احمد اور دیگر علم حدیث کے آئمہ مثلاً ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ   ،ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ   ،بیہقی رحمۃ اللہ علیہ   اور دیگر علماء نے مذکورہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین    سے اس قول کے مروی ہونے کو ضعیف قراردیا ہے انھوں نے صرف ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس قول"بلاشبہ خلع فسخ نکاح ہے طلاق نہیں"کو ہی صحیح قراردیا ہے۔

رہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ   وغیرہ تو انھوں نے کہا ہے کہ ہم اس شخص کے حالات سے واقف نہیں جس نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے یہ موقف بیان کیا ہے کہ کیا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   سے منقول ہے؟ بلکہ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ اس کی صحت سے واقف نہیں ہیں۔اور اہل علم میں سے کسی کو نہیں جا نتا جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   سے اس موقف کے منقول ہونے کو صحیح قراردیا ہوکہ خلع طلاق بائن ہے تین طلاقوں میں شمار ہوگی بلکہ ان کے نزدیک عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے کو موقف صحیح ثابت ہے وہ یہ ہے کہ سند کے ساتھ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے منقول ہے کہ انھوں نے خلع لینے والی عورت کو ایک حیض کے ساتھ استبرائے رحم کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا تم پر عدت نہیں ہے یہ روایت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ان کے نزدیک خلع فرقت بائنہ ہے طلاق نہیں ہے کیونکہ نص قرآنی اور مسلمانوں کے اتفاق سے یہ ثابت ہے کہ مجامعت کے بعد دی جانے والی طلاق تین حیض کی عدت کو واجب کرتی ہے برخلاف خلع کے بلا شبہ سنت اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین   سے یہ ثابت ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض سے استبرائے رحم کرنا ہے اسحاق رحمۃ اللہ علیہ   اور ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہ   اور ان کے علاوہ علماء کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   سے مروی دو روایتوں میں سے ایک روایت اس مذہب کی تائید کرتی ہے۔

بلا شبہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ایک عورت کو دو طلاقوں اور ایک خلع کے بعد اور اپنے خاوند کے علاوہ کسی دوسرے سے نکاح کرنے سے پہلے اس کے خاوند کی طرف نکاح کرنے کے لیے لوٹا دیا تھا ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص کو جب زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے یمن کا والی بنایا تو انھوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے یہ مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا:یمن والوں کی عام طلاق فدیہ (دے کر خلع لینا)ہی ہے تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   نے ان کو جواب دیا کہ فدیہ (دے کر خلع لینا) طلاق نہیں ہے لوگوں نے طلاق کا خلع نام رکھنے میں غلطی کی ہے ۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ  )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 525

محدث فتویٰ

تبصرے