السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب عورت کو ایسی دوری کے بعد،جس کی مدت ایک سال یا دوسال یا اس سے کم ہے،طلاق دے دی گئی اور طلاق سے پہلے استبرائے رحم والی مدت گزرچکی ہے۔کیا اس عورت پر عدت گزارنا لازم ہوگا یا نہیں؟یا اس کے لیے بغیر عدت گزارے شادی کرناجائز ہوگا جبکہ اس کے خاوند نے عوض لے کر طلاق دی ہے اور وہ رجوع کے لیے رغبت بھی نہیں رکھتاہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب عورت کو طلاق دی جائے تو طلاق کے بعد اس پرعدت واجب ہوتی ہے اگرچہ وہ طلاق سے پہلے لمبا عرصہ اپنے خاوند سے جدا رہی ہو کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَالمُطَلَّقـٰتُ يَتَرَبَّصنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلـٰثَةَ قُروءٍ...﴿٢٢٨﴾... سورةالبقرة
"اور وہ عورتیں جنھیں طلاق دی گئی ہے اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔"
اور اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کی بیوہ کو،جب اس نے ثابت سے خلع لیا ،حکم دیاکہ خلع لینے کے بعد ایک حیض عدت گزارے۔
اس حدیث شریف کی روشنی میں درست بات یہ ہے کہ خلع لینے والی عورت طلاق کے بعد ایک حیض عدت گزارے اور یہ حدیث مذکورہ آیت کے مفہوم کو خاص کرنے والی ہے۔پس اگر خلع لینے والی،جس نے مال دے کر طلاق لی ہے ،تین حیض عدت گزارے تو یہ زیادہ مکمل اور احتیاط والی بات ہے۔پھر تین حیض عدت گزارنا اس لیے بھی اولیٰ ہے کہ اس سے ان اہل علم کے اختلاف سے بھی بچا جاسکے گا جو مذکورہ آیت کے عموم کی وجہ سے اس بات کے قائل ہیں کہ خلع لینے والی عورت تین حیض عدت گزارے۔(علامہ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب