السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب حمل فوت ہوجائے تو کیا اس کے ساتھ عدت ساقط ہوجاتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شارح"المنتقی" کے کلام کے مطابق ان کا یہ قول ہے کہ"ظاہری عبارت آیت کے عموم کی وجہ سے اس پر دلالت کرتی ہے اگرچہ حمل عورت کے پیٹ میں مرجائے (پھر بھی وہ عدت میں رہے گی۔)"میں کہتا ہوں:بے شک یہ کہا جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ " (الطلاق:4)سے وہ وضع حمل مراد ہے جو عادت کے مطابق ہو،پس عورت نے زندہ یا مردہ بچہ جنم دیا،وہ عورت عدت سے فارغ ہوگئی،اور جب تک زندہ یا مردہ حالات میں بچہ اس کے پیٹ میں رہے اور اس کے نکلنے کی امید ہوتو عورت اس کے نکلنے تک عدت میں ہوگی،اور اگر بچہ پیٹ میں ہی فوت ہوجائے اور اس کے نکلنے کی واضح امید بھی نہ ہوتو اس عورت کو اگر بچے کے پیٹ سے نکلنے تک عدت میں باقی رہنے کاحکم دیا جائے درآں حالیکہ بچے کے نکلنے کی امید نہ ہوتو اس عورت کو بہت سی تکلیف میں مبتلا رہنا پڑے گا۔
بظاہر صحیح بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ جب بچے کی موت متحقق ہوجائے اور بچے کے نکلنے کی بھی امید نہ ہوتو وہ عورت غیر حاملہ جیسی عدت گزارے گی کیونکہ حمل کا حکم اس عورت سے ساقط ہوچکا جس طرح اس سے حاملہ کا نفقہ ساقط ہوگیا۔
اس ظاہری مفہوم کی تائید ہوتی ہے اس سے کہ بلاشبہ حاملہ عورت کی عدت کی حکمت یہ ہے کہ نطفے خلط ملط نہ ہوجائیں اور نسب مشتبہ نہ ہوجائے،اور اس مسئلے میں یہ حکمت پائی جاتی ہے۔مجھے جو قول ظاہر اور راجح معلوم ہوتاہے وہ یہ کہ اس حالت میں حمل کا حکم عدت کے سلسلے میں ساقط ہوجانا ہے۔ جس طرح اس کے باقی احکام ساقط ہوجاتے ہیں ،جیسے:میراث،وصیت اور نفقے وغیرہ کا استحقاق ۔واللہ اعلم(السعدی)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب