السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا،اس نے یہ کہنے کا ارادہ کیا کہ اس کو ایک طلاق مگر سبقت لسانی کی وجہ سے اس کے منہ سے تین طلاقوں کا لفظ نکل گیا جو کہ اس کی نیت نہیں تھی۔اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب بغیر قصد اور ارادے کے اس کی زبان سے تین طلاقوں کا لفظ نکلا جبکہ اس کا ارادہ ایک طلاق دینے کاتھا تو اس صورت میں ایک ہی طلاق واقع ہوئی ہے بلکہ اگر اس نے"طاہر" لفظ بولنا چاہا مگر سبقت لسانی کی وجہ سے طلاق کا لفظ منہ سے نکل گیا تو اس سے اس کے اور اللہ کے درمیان طلاق واقع نہیں ہوگی۔واللہ اعلم۔(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب