السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنی بیوی کو پڑوسیوں کے گھر جانے سے منع کیا اور اس پر طلاق کو معلق کیا،پھر وہ عورت بھول کر ان کے گھر چلی گئی،پھر میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہواتو میاں نے اس کومارا،اس پر عورت نے کہا:مجھ کو طلاق دے دو اور تم اپنی اولاد اور سازوسامان،یعنی جہیز کی ادائیگی سے بری الذمہ ہو۔اس سے وہ غصہ میں آیا اور اس کو طلاق دے دی،پھر وہ اس پر پشیمان ہوا اور عورت نے مانی ہوئی چیزوں میں سے کوئی چیز ابھی اس کے حوالے نہیں کی۔مرد اس کا حکم دریافت کرتاہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلی طلاق ،جب وہ بھول کر پڑوسیوں کے گھر چلی گئی،واقع نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا...﴿٢٨٦﴾... سورةالبقرة
"اے ہمارے رب!ہم سے مواخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا خطا کرجائیں۔"
اور حدیث میں ہے:
"قَالَ اللَّهُ : قَدْ فَعَلْتُ"[1]
"اللہ تعالیٰ نے(اس آیت میں مذکوردعا کے جواب میں) فرمایا:بلاشبہ میں نے ایسے ہی کیا(یعنی بھول معاف کردی۔)"
دوسری طلاق کے متعلق بھی ظاہری بات یہ ہے کہ یہ واقع نہیں ہوئی، اس لیے کہ وہ عوض کے مقابلے میں تھی،اور وہ عوض تمہارے حوالے نہیں کیا گیا،لہذا تمہارا اُس عورت سے رجوع کرنا صحیح ہے اور وہ بدستور تمہاری بیوی ہے،اسکے ساتھ حسن سلوک کرو اور اپنی زبان کوطلاق کی تکرار سے محفوظ رکھ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بیوی کھو بیٹھو۔(محمد بن ابراہیم)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(126)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب