سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(529) اے میری بیوی! اگر تُو اپنے خاندان کے پاس رہے گی تو میری بیوی ہرگز نہ ہو گی

  • 19377
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 607

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب میں نے اپنے شہر سے باہر جانے کا اردہ کیا تو میری بیوی نے انکار کیا،مانی تو اس شرط پر کہ وہ اپنے خاندان والوں کے پاس رہے گی،چونکہ اس کے خاندان والے دین سے بے رغبتی رکھتے ہیں۔میں نے اس سے کہا:اللہ کی قسم اگر تو ان کے پاس رہے گی تو تُو میری بیوی ہر گز نہ ہوگی،لیکن وہ انھی کے ساتھ رہی۔کیا یہ تین طلاق معتبر ہوگی؟اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبل اس کے کہ میں اس سوال کا جواب دوں میں یہ چاہوں گا کہ خاوندوں کو نصیحت کروں کہ وہ(لفظ) طلاق بولنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا کریں کیونکہ یہ بڑا سنگین معاملہ ہے۔نکاح کا مسئلہ عقود میں سب سے سنگین مسئلہ ہے ،تمھیں ایساکوئی عقد نہیں ملے گا جس میں شریعت نے اس قدر اعتنا برتا ہو اور جس کی ابتداء وانتہا اور عقد وفسخ میں احتیاط کی تعلیم دی ہو جتنی کہ نکاح کے مسئلے میں محتاط ہونے کی تعلیم دی ہے کیونکہ اس پر میراث ،انساب،سسرالی رشتے اور بہت سے معاشرتی مسائل مرتب ہوتے ہیں ،اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس کی متعدد شرطیں ہیں۔

پس انسان کا معمولی  بات پر آپے سے باہر ہونا اور طلاق دینا اس کی بیوقوفی سمجھی جائے گی۔کتنے ہی وہ لوگ ہیں جو طلاق دیتے ہیں اور پھر ہر عالم کی چوکھٹ کے چکر لگاتے ہیں کہ شاید چھٹکارے کی کوئی راہ نکل آئے اور(اپنے اس کرتوت پر)نادم ہوتے ہیں،لہذا میری نصیحت ہے کہ ان امور میں ہم جلد بازی نہ کیا کریں۔

اسی وجہ سے یہ بات شارع کی حکمت تصور ہوتی ہے کہ اس نے اپنی حائضہ بیوی کو طلاق دیناانسان پر حرام قرار دیاہے کیونکہ وہ اس سے مجامعت کی رکاوٹ کی وجہ سے اس کو ناپسند کرتاہے اور کہتاہے:یہ رکاوٹ ہم پر لمبی ہوگئی لہذا وہ ا س کو طلاق دے دیتا ہے۔اسی لیے شارع نے اس کو حیض کی حالت میں طلا دینے سے منع کیا ہے،اور اس طہر میں بھی طلاق دینے سے روکا ہے جس میں اس سے مجامعت کرلی ہو،اس لیے کہ ممکن ہے کہ جنین کی نشاۃ ہورہی ہو اور یہ اس سے بے خبر ہو ،اور اس لیے بھی کہ جب اس نے آخری مرتبہ مجامعت کی تو اس کی شہوت کمزور پڑگئی اور وہ بیوی میں اتنی رغبت نہ رکھتا ہو جتنی کہ وہ شخص رغبت رکھتاہے جو ایک عرصے سے علیحدہ رہنے والا ہے لہذا انسان کو مسئلہ طلاق میں سنجیدگی اختیار کرنا چاہیے۔

اگر اس کو اس قسم کا مسئلہ در پیش ہوا اوراس نے اپنی بیوی سے کہا ہو:اگر تو وہاں جائے تو تو میری بیوی نہیں ہے یا میں نے تجھے طلاق دےدی یا اس قسم کے طلاق کے صریح یا کنائی الفاظ بولے تو ہم اس کی نیت کی طرف رجوع کریں گے اور اس سے سوال کریں گے کہ کیا تم اپنے اس کلام سے طلاق دینے کا اردہ رکھتے ہو؟یعنی جب تمہاری بیوی اس مسئلے میں تمہاری مخالفت کرے تو تم اس سے بے ر غبتی کروگے اور اس کو نہ چاہو گے یا اس کلام سے تمہارا مقصد صرف اس کو ڈانٹنا اور منع کرناہے؟اور(ہم کہتے ہیں):جب وہ اس حالت میں تمہاری مخالفت کرے گی تو وہ طلاق یافتہ نہ ہوگی،لیکن تم پر قسم کاکفارہ واجب ہوگا کیونکہ اس صیغے کا حکم قسم کا حکم ہے،اور اس مسئلے میں قدرے تفصیل ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 475

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ