السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے اپنی بیوی کو تین متفرق طلاقیں دے دیں،پہلی طلاق نشے کی حالت میں ناراضگی اور غصے کی بنا پر اور دوسری دو طلاقیں شدید غصے کے نتیجے میں۔معلوم رہے کہ ہمارے درمیان الفت ومحبت موجودہے۔کیا عورت کی واپسی نہیں ہوسکتی؟جواب سے نواز کرعنداللہ ماجور ہوں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اولاً:سائل نے ذکر کیا ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں،پس پہلی طلاق کے متعلق وہ کہتا ہے کہ وہ نشے اور غصے کی حالت میں تھا اور دوسری طلاق شدید غصے کی حالت میں دی،اور تیسری طلاق بھی شدید غصے کی حالت میں ہی دی۔
وہ سوال کرتاہے کیا اس کی بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟میں اس سے استفسار کرتا ہوں کیا اس نے اس کو طلاق سمجھا کہ نہیں؟ کیا اس نے بذات خود اس کو طلاق اعتبار کیا یا نہیں؟حالت نشہ میں دی ہوئی طلاق میں علماء کا اختلاف ہے ،ان میں سے بعض نے کہا:اس کے عقل سے بیگانہ ہونے کی وجہ سے اس کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ان میں سے بعض کا کہناہے کہ بطور سزا طلاق واقع ہوجائےگی،جبکہ راجح قول یہ ہے کہ اس کی طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ وہ غیر عاقل ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہاہے؟
رہی سزا تو بلاشبہ ہم اس کو کوڑوں کی سزا دیں گے،مثلاً:پہلی مرتبہ شراب پینے پر ہم اس کو کوڑے ماریں گے ،جب دوسری مرتبہ شراب پیے گا ہم پھر اسے کوڑے ماریں گے،جب تیسری مرتبہ شراب پیے گا ہم پھر اسے کوڑے ماریں گے اور جب وہ چوتھی مرتبہ شراب پیے گا تو ہم اس کو قتل کردیں گے کیونکہ صحیح حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من شرب الخمر فاجلدوه ، ثم إذا شرب فاجلدوه ، ثم إذا شرب فاجلدوه ، ثم إذا شرب في الرابعة - ذكر كلمة معناها - فاقتلوه"[1]
"جوشراب پیے اس کو کوڑے لگاؤ،پھر اگرشراب پیے تو اس کو کوڑے مارو،پھر اگر شراب پیے تو اس کو کوڑے لگاؤ،پھر اگر شراب پیے تو اس کو قتل کردو۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی مرتبہ شراب پینے پر اس کو قتل کرنے کا حکم دیا۔علماء کا اس میں اختلاف ہے کیا یہ قتل کرنے والا حکم منسوخ ہے یا محکم؟بعض نے کہا:بلاشبہ وہ منسوخ ہے،یہ بھی کہا گیاہے ،بلاشبہ وہ محکم لیکن مقیدہے۔
اور صحیح بات یہ ہے کہ بلاشبہ وہ محکم مقید ہے لیکن کس کے ساتھ مقید ہے؟جب لوگ بغیر قتل کرنے کے شراب نوشی سے باز نہ آئیں تو چوتھی مرتبہ شراب نوشی پر اس کو قتل کردیا جائے گا،لیکن جب لوگوں کاقتل کیے بغیر شراب نوشی سے بچنا ممکن ہوتو ہم اس کو قتل نہیں کریں گے۔اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے پسند کیاہے۔
اور وہ لوگ جنھوں نے کہا ہے:جب اس کو تین مرتبہ کوڑے مارے جاچکیں تو چوتھی مرتبہ اس کو مطلقاً قتل کردیا جائے گا۔یہ لوگ اہل ظاہر ہیں،جیسے ابن حزم اور جو اُن سے پہلے یا بعد کے ہیں۔اور جنھوں نے کہا کہ یہ حکم منسوخ ہے وہ جمہور اہل علم ہیں۔لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ نسخ کا قائل ہونا دو شرطوں کے بغیر جائز نہیں ہے:
1۔پہلی شرط جب:(دو بظاہر متعارض روایتوں کا) جمع ممکن نہ ہو۔
2۔دوسری شرط:ناسخ کے موخر ہونے کا علم ہو۔
پس جب تک جمع ممکن ہو نسخ ممنوع ہوتا ہے کیونکہ جب نصوص میں توافق اورجمع ممکن ہو تو ان تمام میں توافق اور جمع واجب ہوگا تاکہ ہم بعض کو ملغی نہ کریں اور جب تاریخ معلوم نہ ہوتو توقف کرنا واجب ہوگا کیونکہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوسری کو منسوخ کرنا اس کو چھوڑنے سے اولیٰ ہے۔
اور دوسری طلاق کے متعلق سائل کہتا ہے کہ اس نے شدید غضب کی حالت میں طلاق دی اور غضب کے تین درجے ہیں:ابتدائی ،درمیانی اور انتہائی۔
1۔پہلادرجہ یہ ہے کہ غصہ ہلکا سا ہو جس میں انسان کو ا پنی کہی ہوئی بات کی سمجھ آئے اور اسے اپنے نفس پر کنٹرول ہوتو اس کاکوئی اثر نہیں،یعنی اس قسم کے غصے والا ا پنے کلام پر احکام مرتب ہونے کے اعتبار سے اس شخص کی طرح ہے جس کو غصہ نہ آیا ہو۔
2۔دوسرادرجہ درمیانے غصے کا ہےجو(غصے میں) انتہا کو نہ پہنچا ہو لیکن اس غصے والے کو اپنے نفس پر قابو نہیں ہوتا،گویا کہ کسی چیزنے اس پر بوجھ ڈالاتو اس نے طلاق کا لفظ بول دیا۔
3۔تیسرا درجہ انتہائی ہے جس درجے کا غصہ کرنے والا مطلقاً نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟اسے یہ علم نہیں رہتا کہ وہ زمین میں ہے یا آسمان میں،اور اس قسم کے غصے میں بعض عصبی مزاج لوگ مبتلا ہوتے ہیں کہ جب وہ غضبناک ہوتے ہیں تو نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کو اپنے اوپر قابو نہیں رہتا،اور ان کو اپنی بھی خبر نہیں رہتی کہ وہ زمین پر ہیں یا آسمان میں حتیٰ کہ ان کو یہ خبر نہیں رہتی کہ یہ جو ان کے پاس ہے ان کی بیوی ہے یا بازار کا کوئی آدمی؟
غصے کےیہی تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ:اس قسم کا غصہ کرنے والے کے احکام غصے سے خالی شخص کے احکام کی طرح ہیں،کیونکہ یہ ایسا غصہ ہے جس پر مواخذہ کیا جاتا ہے۔
اور انتہائی مرتبہ کے متعلق علماء کا اجماع ہے کہ غصہ کرنے والے کے قول واقرار کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا بلکہ وہ لغو ہے کیونکہ ایسے شخص کو سرے سے شعور ہی نہیں ہوتا،لہذا اس کا کلام مجنون آدمی کے کلام کی طرح ہے۔
اور درمیانہ مرتبہ جس میں انسان کو یہ شعور اور تصور ہوکہ وہ کیا کہہ رہاہے لیکن اس کو اپنے اوپر کنٹرول نہ ہو،گویا کسی چیز نے اس کو ایسا غصہ دلایا کہ وہ طلاق کا لفظ منہ سے ادا کردے۔غصے کی اس قسم میں علماء کا اختلاف ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس حالت میں طلاق واقع نہ ہوگی،دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے:
(لَا طَلَاقَ وَلَا عَتَاقَ فِي إِغْلَاقٍ) [2]
"غصہ کی حالت کی طلاق اور آزادی کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔"
نیز اگر آدمی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے اور وہ اکراہ کے نتیجے میں طلاق دے دے تو اس کی دی ہوئی طلاق واقع نہ ہوگی،یہ بھی اکراہ ہی کی ایک صورت ہے لیکن یہ اکراہ باطنی امر کی وجہ سے ہے جس کاظہور لازمی ہے۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث(5661)
[2] ۔حسن سن ابی داؤد الحدیث (2193)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب