السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آدمی کا اپنے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کا کیا حکم ہے؟دلائل کے ساتھ وضاحت فرما کر ہمیں فائدہ پہنچائے کیونکہ ہمیں اس کی اشد ضرورت ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آدمی کے لیے ایک سے زیادہ چار تک بیویوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ اسے اپنے دل میں وثوق ہو کہ وہ اپنی بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کر سکے گا اور ظلم سے بچا رہے گا۔ لیکن اس پر چار سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں کرنا حرام ہے
دلیل اس کی کتاب اللہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت ہے۔
جہاں تک کتاب اللہ سے اس کے جواز کی دلیل ہے تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿وَإِن خِفتُم أَلّا تُقسِطوا فِى اليَتـٰمىٰ فَانكِحوا ما طابَ لَكُم مِنَ النِّساءِ مَثنىٰ وَثُلـٰثَ وَرُبـٰعَ فَإِن خِفتُم أَلّا تَعدِلوا فَوٰحِدَةً أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُكُم ... ﴿٣﴾... سورةالنساء
"اور اگر تم ڈرو کہ یتیموں کے حق میں انصاف نہیں کروگے تو (اور) عورتوں میں سے جو تمھیں پسندہوں ان سے نکاح کرلو دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے۔"
پھر اگر تم ڈرو کہ عدل نہیں کرو گے تو ایک بیوی سے یا جن کے مالک تمھارے دائیں ہاتھ ہیں(یعنی لونڈیاں)"
پس اللہ تعالیٰ نے ہر اس شخص کو اجازت دی ہے جو ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہو کہ وہ (جس ظلم کرنے کا ڈرنہ ہو) چاہے تو دو شادیاں کر لے چاہے تو تین کر لے اور اگر چاہے تو چار شادیاں کر لے مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس کو چار سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں دی شرمگاہوں میں اصل حرمت ہے لہٰذا وہ انھی حدود کے اندر رہ کر جائز ہیں جو اللہ نے بیان کی ہیں اور جس کی اجازت دی ہے اور اللہ نے چار بیویوں سے زیادہ کو جمع کرنے کی اجازت نہیں دی پس جو ان سے زائد ہوں گی وہ اصل حرمت پر باقی رہیں گی۔
رہا سنت سے اس کا ثبوت تو وہ یہ ہے جس کو ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ اور ابن ماجہ نے قیس بن حارث سے روایت کیا ہے کہ قیس نے بیان کیا جب میں مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں آٹھ عورتیں تھی۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس مسئلے کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" اخْتَرْ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا "[1] "ان میں سے چار کا انتخاب کر لے۔"
نیز وہ روایت جس کو احمد رحمۃ اللہ علیہ ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ، اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ، نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ غیلان ثقفی نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس زمانہ جاہلیت میں دس بیویاں تھیں جو کہ ان کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ ان میں سے چار کا انتخاب کر کے رکھ لو۔[2] اس روایت کو ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے اور اس کو صحیح قراردیا ہے۔
اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آئمہ اربعہ اور تمام اہل سنت والجماعت کا اس پر قولاً اور عملاً اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی آدمی کے لیے اپنے نکاح میں چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں ہے لہٰذا جس نے اس کی رغبت کی اور چار سے زیادہ بیویوں کو اپنے نکاح میں جمع کیا بلا شبہ اس نے کتاب اللہ اور سنت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی اور اہل سنت والجماعت سے علیحدہ ہوگیا(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2241)
[2] ۔صحیح سنن الترمذی رقم الحدیث (1128)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب