سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(520) زنا کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی عورت سے نکاح کاحکم

  • 19368
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1005

سوال

(520) زنا کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی عورت سے نکاح کاحکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک ایسی بیوہ عورت سے نکاح کرنے کا کیا حکم ہے جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہے اور اسے آٹھواں مہینہ لگا ہواہے؟کیا یہ عقد باطل،فاسد یا صحیح ہوگا؟ہمارے ہاں کے دو علماء نے اس میں اختلاف کیا ہے،ان میں سے ایک نے اس عقد کو باطل قرار دیا ہے جبکہ دوسرا اس کو صحیح کہتا ہے مگر اس نے اس عورت سے شادی کرنے والے پر وضع حمل سے پہلے وطی کو حرام قرار دیاہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص زنا کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی عورت سے نکاح کرے گا تو اس کا نکاح باطل ہوگا:

"حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ" (البقرۃ:235) لہذا مرد پر اس سے وطی کرنا حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمومی قول ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ ...﴿٢٣٥﴾... سورةالبقرة

"اور نکاح کی گروہ پختہ نہ کرو یہاں تک کہ لکھا ہوا حکم اپنی مدت کو پہنچ جائے۔"

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ ...﴿٤﴾... سورةالطلاق

"اور جو حمل والی ہیں ان کی عدت یہ ہے کہ وہ اپنا حمل وضع کردیں۔"

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ عمومی قول ہے:

"لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره"[1]

"کسی شخص کو،جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو،یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے کی کھیتی کو پانی پلائے۔"

(اس کو ابوداود رحمۃ اللہ علیہ   نے روایت کیاہے اور حاکم  رحمۃ اللہ علیہ   نے اس کو صحیح کہا ہے)

اور اس کے قائل امام مالک رحمۃ اللہ علیہ   اور امام احمد  رحمۃ اللہ علیہ   ہیں امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ   سے  اور امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ   سے ایک روایت میں یوں مروی ہے کہ یہ عقد درست ہوگا،لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ   نے مذکورہ احادیث کی وجہ سے اس پروضع حمل سے پہلے وطی کرنا حرام قرار دیاہے جبکہ امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ   نے اس سے وطی کرنا جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہے اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف منسوب کیاجائے گا،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے:

"وللعاهر الحجر"[2]

"زانی کے لیے پتھر ہیں"

اس طرح بچے کو اس عورت سے نکاح کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ عورت اس کے لیے حمل کے بعد فراش بنی ہے۔

لہذا مذکورہ بحث سے شیخین کے درمیان اختلاف کا سبب واضح ہوگیا ان میں سے ہر ایک نے وہی حکم لگایا ہے جو اس امام کا قول ہے جس کا وہ مقلد ہے لیکن درست موقف پہلا ہی ہے مذکورہ دو آیتوں کے عموم اور ان احادیث کی وجہ سے جو اس کی ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)


[1] ۔حسن سنن ابی داود  رقم الحدیث(2158)

[2] ۔صحیح البخاری  رقم الحدیث(1948) صحیح مسلم رقم الحدیث(1457)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 465

محدث فتویٰ

تبصرے