السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلمانوں کی بیٹیوں کو غیر مسلم سے بیاہنے کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس نکاح کے متعلق کتاب وسنت اور مسلمانوں کے اجماع کے دلائل کے ساتھ حکم یہ ہے کہ یہ نکاح باطل ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلا تَنكِحُوا المُشرِكـٰتِ حَتّىٰ يُؤمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤمِنَةٌ خَيرٌ مِن مُشرِكَةٍ وَلَو أَعجَبَتكُم وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا وَلَعَبدٌ مُؤمِنٌ خَيرٌ مِن مُشرِكٍ وَلَو أَعجَبَكُم أُولـٰئِكَ يَدعونَ إِلَى النّارِ وَاللَّهُ يَدعوا إِلَى الجَنَّةِ وَالمَغفِرَةِ بِإِذنِهِ وَيُبَيِّنُ ءايـٰتِهِ لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَذَكَّرونَ ﴿٢٢١﴾... سورة البقرة
"اور شرک کرنے والی عورتوں سے تاوقتیکہ وه ایمان نہ لائیں تم نکاح نہ کرو، ایمان والی لونڈی بھی شرک کرنے والی آزاد عورت سے بہت بہتر ہے، گو تمہیں مشرکہ ہی اچھی لگتی ہو اور نہ شرک کرنے والے مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو دو جب تک کہ وه ایمان نہ لائیں، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے، گو مشرک تمہیں اچھا لگے۔ یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، وه اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ وه نصیحت حاصل کریں"
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿لا هُنَّ حِلٌّ لَهُم وَلا هُم يَحِلّونَ لَهُنَّ...﴿١٠﴾... سورةالممتحنة
"نہ یہ عورتیں ان کے لیے حلال ہیں اور نہ ہو(کافر) ان کے لیے حلال ہوں گے۔"
اس وجہ سے کہ عورت کے متعلق خدشہ ہے کہ مرد اس کو اس کے عقیدے سے پھیر دے گا اور عورت مرد سے اس فساد عقیدہ کو قبول کرلے گی مگر مرد اس سے اصلاح عقیدہ کو قبول نہیں کرے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿ أُولـٰئِكَ يَدعونَ إِلَى النّارِ... ﴿٢٢١﴾... سورةالبقرة
"یہ لوگ آگ کی طرف بلاتے ہیں۔"
یعنی بلاشبہ مشرکین کی یہ عادت ہے کہ وہ ایسے اقوال،اعمال اور اعتقادات کی طرف دعوت دیتے ہیں جو آگ میں داخل ہونے کا سبب بنتے ہیں۔اور زوجیت کا تعلق اس دعوت کو دلوں میں اتارنے کا ایک زبردست محرک ہے ،لہذا اس کا خاوند اس سے اس وقت تک راضی نہ ہوگا جب تک یہ اس کے دین کی پیروی نہ کرے گی،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَن تَرضىٰ عَنكَ اليَهودُ وَلَا النَّصـٰرىٰ حَتّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُم...﴿١٢٠﴾... سورةالبقرة
"اور تجھ سے یہودی ہرگز راضی نہ ہوں گے اور نہ نصاریٰ یہاں تک کہ تو ان کی ملت کی پیروی کرے۔"
نیز غیر مسلم کسی صورت میں بھی مسلمان عورت کے جوڑ کا نہیں ہے کیونکہ زوجیت کے حقوق بیوی سے خاوند کے لیے کچھ چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ...﴿٣٤﴾... سورة النساء
"مرد عورتوں پر نگران ہیں،اس وجہ سے کہ اللہ نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطاکی۔"
اور جب خاوند کافر اور بیوی مسلمان ہو توان میں موافقت اور ملائمت نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكـٰفِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلًا ﴿١٤١﴾... سورة النساء
"اور اللہ کافروں کے لیے مومنوں پر ہرگز کوئی راستہ نہیں بنائے گا۔"
نیز خاوند اپنی بیوی پر حسی اور معنوی لحاظ سے فوقیت رکھتا ہے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے متصادم ہے:
"الإسلام يعلو ولا يعلى عليه"[1]
"اسلام غالب آئے گا اور اس پر غلبہ نہیں پایا جائےگا۔"
اور واجب یہ ہے کہ اس طر ح کے معاملے میں پوری صداقت کے ساتھ استقامت اختیار کی جائے اور جن عورتوں کو ایسا کرنے پر ان کے نفسوں نے آمادہ کررکھاہے،ان کے خلاف شریعت مطہرہ کے قوانین کے مطابق کاروائی کی جائے،جس عورت نے اس کو حلال جانے بغیر شادی کی گویا اس نے گناہ عظیم اور بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس پر ارتداد کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔اس پر رجم کی حد قائم کرناواجب ہے اگر وہ شادی شدہ رہی ہو،اور ا گر کنواری ہوتو کوڑوں اور ایک سال جلاوطنی کی حد قائم کی جائے۔
یہ سزا اُس صورت میں ہے جب اسے حرمت نکاح کا علم ہو لیکن اگر وہ شرعی حکم سے ناواقف ہوتو اس سے حد ساقط ہوجائے گی کیونکہ شبہات کی صورت میں حدود اٹھالی جاتی ہیں۔اسی طرح ان دونوں کے درمیان جدائی کرانا واجب ہے اور خاوند کے حق میں یہ واجب ہے کہ شریعت غراء کے قوانین کے تقاضوں کے مطابق اس کےخلاف کاروائی کی جائے۔پس ولی امر کو شرعی اور مبنی برمصلحت نظر وفکر اور جدائی کے معاملے میں اجتہاد کرنا چاہیے جو اس قسم کے لوگوں پر نافذ ہوسکے،حتیٰ کہ اگر مصلحت اس امر کاتقاضا کرتی ہو کہ ان کو قتل کی سزا دی جائے تو ان کو ایسے کرنے کا حق ہے ،اور اس طرح کے معاملات شریعت اسلامیہ میں جائز ہیں۔(محمد بن ابراہیم)
[1] ۔حسن سنن الدارقطنی(252/3)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب