السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر جنوبی علاقے میں نکاح شغار رائج ہے۔بعض لوگ پکڑ دھکڑ کے خوف سے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ان حیلوں میں سے ایک حیلہ یہ ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ حق مہر مقرر کرتے ہیں اور الگ الگ وقتوں میں شادی منعقد کرتے ہیں۔ان میں ایک آج ملکیت کوقبول کرتاہے اور دوسرا کچھ مدت کے بعد۔ایک حاکم کی اجازت یافتہ کے پاس عقد کرتا ہے جبکہ دوسرا اس کے برخلاف۔ اور اس شادی کے حکم شرعی کے متعلق فتویٰ طلب کرتا ہے کہ کیا یہ حیلے ان شادیوں کو شغار ہونے سے بچا لیتے ہیں؟خاص طور پر جب اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ مجھ سے شادی کراؤ میں تجھ سےشادی کراؤں گا،ورنہ نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مفتی د یار سعودیہ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اس قسم کا سوال پیش ہوا،انھوں نے اس کا جواب دیا۔ہم اسی جواب پر اکتفا کر تے ہیں اور سائل کے لیے حرف بحرف نقل کرتے ہیں:
نکاح شغار یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کرے،یایہ اس سے بہن کا نکاح اس شرط پر کرے کہ دوسرا بھی اپنی بہن کا نکاح اس سے کرے،اور ان دونوں کے درمیان حق مہر نہ ہو،اس کی قباحت کی وجہ سے اس کا نام شغار رکھا جاتا ہے،اس کی قباحت کو کتے کے پیشاب کرنے کے لیے ٹانگ اٹھانے سے تشبیہ دی گئی ہے۔"شغر الکلب" اس وقت بولا جاتاہے جب وہ پیشاب کرنے کے لیے اپنی ٹانگ اٹھائے،پس نکاح شغار میں گویا ہر ایک نے دوسرے کے ارادے کی تکمیل کے لیے ٹانگ اٹھائی ہے۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شغار"خلو"سے ہے،جب مکان خالی ہوتو کہا جاتا ہے:"شغر المکان" اور جہت شاغرہ کا مطلب ہے خالی۔پس وہ دونوں طرف سے خالی کرنے کے بدلے خالی کرنا اور شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ دینے کے معنی میں ہے۔
نکاح شغار کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔بلاشبہ وہ شریعت الٰہیہ کے مخالف ہے،جیسے کہ اس کی حرمت اور مقاصد شریعت کے خلاف ہونے پر صحیح احادیث شریفہ دلالت کرتی ہیں،چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔اور صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا شِغَارَ فِي الإِسْلامِ "[1]
"اسلام میں شغار نہیں ہے۔"
نیز صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا،اور شغار یہ ہے کہ کوئی شخص کہے: تو مجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دے،میں تجھ سے اپنی بیٹی بیاہ دوں گا،یا تو مجھ سے اپنی بہن کی شادی کردے،میں تجھ سے اپنی بہن کی شادی کردوں گا۔
اور صحیح مسلم میں ابوالزبیر سے روایت ہے کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا۔
اور عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج سے روایت ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کی شادی کی اور عبدالرحمان نے ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی،انھوں نے حق مہر بھی مقرر کیا مگر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مروان بن حکم(گورنر مدینہ) کو خط لکھ کر حکم دیا کہ وہ ان دونوں کے درمیان جدائی کروادیں۔اور اپنے خط میں یہ بھی لکھاکہ یہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔(اس کوا حمد رحمۃ اللہ علیہ اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے) علمائے کرام رحمۃ اللہ علیہ نے شغار کی تفسیر اور اسی طرح اس کی صحت میں اختلاف کیا ہے،قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے"نیل الاوطار" میں فرمایا کہ شغار کی دو صورتیں ہیں:
ایک صورت تو وہ ہے جس کا احادیث میں ذکر ہواہے اور وہ ہے دونوں کی طرف سے حق مہر سے خالی ہونا،اور دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں ولیوں میں سے ہر ایک ولی دوسرے پر یہ شرط لگائے کہ وہ اپنی ولیہ کی اس سے شادی کرے۔علماء میں سے بعض نے دوسری صورت کے علاوہ پہلی صورت کو شغار معتبر جاناہے اور اس سے منع کیا ۔ابن عبدالبر نے کہا:
"علماء کا اس پر اجماع ہے کہ نکاح شغار جائز نہیں ہے لیکن انھوں نے اس کی صحت میں اختلاف کیا ہے۔"
مگر جمہور اس کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے:دخول سے قبل تو نکاح فسخ ہوگا مگردخول کے بعد نہیں۔اسی موقف کو ابن المنذر نے امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کیاہے حنفیہ اس کی صحت اور وجوب مہر کے قائل ہیں۔امام زہری ،مکحول،ثوری اور لیث رحمۃ اللہ علیہ کابھی یہی قول ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ،اسحاق رحمۃ اللہ علیہ ، اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مروی ہے۔"
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے"زاد المعاد" میں کہاہے:
"اس میں فقہاء کا اختلاف ہے،پس امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:شغار باطل یہ ہے کہ ایک شخص اپنی ولیہ کی شادی کرے اس بنا پر کہ وہ دوسرا بھی اپنی ولیہ کی شادی کرے اور ان کے درمیان مہرمقرر نہ ہو،لہذا اگر وہ اس کے ساتھ مہر مقرر کرلیں تو ان کے نزدیک مہر مسمیٰ کی وجہ سے عقد صحیح ہوگا۔
اور خرقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:" اگر مہر مقرر کرلیں پھر بھی نکاح صحیح نہ ہوگا۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ابو البرکات ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے کہا:اور اگر وہ مہر مقرر کریں اور ساتھ ہی یہ کہیں کہ ہر ایک دوسرے کاحق مہر پس انداز کردے گا تو نکاح صحیح نہ ہوگا ،اور اگر وہ یہ نہ کہیں تو نکاح صحیح ہوگا۔انھوں نے "محرر" میں کہا:جس کسی نے ولیہ کا نکاح کسی شخص سے اس بنا پر کیا کہ وہ دوسرا بھی اپنی ولیہ کا اس سے نکاح کرے گا،اس نے اس کو قبول کرلیا اس طرح کہ ان دونوں کے درمیان حق مہر بھی نہ تھا تو عقد صحیح نہیں ہوگا اور اس کا نام نکاح شغار رکھا جائے گا،اوراگر وہ مہر مقرر کریں تو مہر مسمیٰ کے ساتھ عقد صحیح ہوگا اور اس پر نص موجود ہے۔
جبکہ خرقی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:یہ صحیح نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ کہے:ہر ایک کی شرمگاہ دوسری کا حق مہر ہے تو نکاح صحیح نہیں ہے اور اگر ایسا نہیں کہا گیا تو یہ زیادہ صحیح ہے۔"
اس مسئلے میں اختلاف کے پیش نظر ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ بلاشبہ جو صریح شغار ہے اس میں اختلاف نہیں ہے اور وہ یہ کہ ان میں کسی کا حق مہر نہ ہو بلکہ شرمگاہ شرمگاہ کے مقابلے میں ہو،یا قلیل حق مہر مقرر کیاجائے تاکہ حیلے کے ذریعے اس نکاح کے بطلان کے حکم سے بچا جاسکے تو ایسا عقد دخول سے قبل یا دخول کے بعد فسخ کردیاجائے گا۔
شریعت اسلامیہ میں شغار کو حرام کیاگیا ہے کیونکہ اس میں ولایت کی ذمہ داریوں اور اس کے تقاضوں سے کھلواڑ ہے جبکہ ولی پر لڑکی کی خیر خواہی کرتے ہوئے محنت کرکے اچھا خاوند،جو اس کے لیے دینی اوردنیاوی سعادتوں کو حاصل کرنے میں معاون ثابت ہو،ڈھونڈنا واجب ہے کیونکہ ولی کی نظر اپنی زیر تربیت لڑکی پر مصلحت ،رعایت اور اہتمام کی نظر ہے نہ کہ شہوت،تسلط اور غفلت کی نظر،پس وہ اس کی لونڈی،چوپائے یامملوکہ چیز کے درجے میں نہیں ہے کہ وہ اس کو اپنے ارادے کے حصول کا ذریعہ بنائے بلکہ وہ اس کی گردن میں امانت ہے۔اس پر لازم ہے کہ وہ برابر کے خاوند اور مہر مثل کے ساتھ اس کی شادی کا بندوبست کرے۔پس ہر ذمہ دار اور راعی سے اس کی ذمہ داری کے متعلق سوال کیا جائے گا۔
اور جب کسی ولی کی طرف سے لڑکی کی مصلحت میں تساہل برتا جائے اور وہ اپنی مصلحت کو اس کی مصلحت پر ترجیح دے،جیسا کہ وہ اس کے بدلے مال طلب کرے یا بیوی تلاش کرے یا اسکو شادی سے اس غرض سے روک کررکھے کہ کوئی اس کی مراد پوری کرے گا تو وہ اس کی شادی کرے گا،ایسی صورت میں لڑکی پر اس کی ولایت ساقط ہوگی اور ایسا قریبی ولی اس کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے گا جو اس کی مصلحتوں پر توجہ دیتا ہو۔
اور سائل نے یہ جو ذکر کیا ہے کہ بنو حارث وغیرہ کے قبائل میں نکاح شغار عام ہوچکاہے تو اس پر اور ان تمام لوگوں پر جو مسلمانوں کے مصالح میں غیرت رکھتے ہیں واجب ہے کہ وہ اپنی زبانوں کے ساتھ اس سے روکیں اور اگر وہ اس سے باز نہ آئیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس معاملے کو حکومت کے ذمہ داروں تک پہنچائیں اور ان شاء اللہ حکومت کے ذمہ داران جلد ہی اس پر ایسے اقدامات کریں گے جس سے احقاق حق اور ابطال باطل اور اسلام کی حرمت کی حفاظت اور اسکے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا یقینی ہوجائےگا۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1415)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب