سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(511) بیویوں میں باری کی تقسیم کا حکم

  • 19359
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 897

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دلہا اپنی کنواری بیوی کے ساتھ ایک ہفتہ اور بیوہ کے پاس تین دن اس طرح گزارتا ہے کہ باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے بھی نہیں نکلتا۔کیا یہ فرق اور نماز ک لیے نہ نکلنا سنت سے ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کنواری عورت سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن ٹھہرے ،پھر باری تقسیم کرے۔اور اگر بیوہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن ٹھہرے،پھر باری تقسیم کرے ،پس اگر بیوہ یہ چاہتی ہے کہ خاوند اس کے پاس سات دن ٹھہرے تو وہ ایسا کرے گا اور پھر باقیوں کے ہاں بھی اتنے ہی دن ٹھہرے گا۔

اس مسئلے کی دلیل وہ روایت ہے جو ابو قلابہ نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے بیان کیاہے فرماتے ہیں:

"من السنة إذا تزوج الرجل البكر على الثيب أقام عندها سبعا وقسم وإذا تزوج الثيب على البكر أقام عندها ثلاثا ثم قسم"[1]

"یہ مسئلہ سنت سے ہے کہ جب آدمی(بیوہ بیوی کے ہوتے ہوئے) کنواری  سے شادی کرے تو اس کے پاس سات دن گزار کر پھر باری مقرر کرے،اور جب بیوہ سے شادی کرے تو اس کے پاس تین دن گزار کر پھر باری تقسیم کرے۔"

اور وہ روایت جس کو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    نے بیان کیا ہے کہ بلاشبہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے ان سے شادی کی تو ان کے پاس تین دن گزارے(اس لیے کہ یہ بیوہ تھیں) اور فرمایا:

"إنه ليس بك هوان على أهلك ، فإن شئت سبعت لك ، وإن سبعت لك سبعت لنسائي"(رواہ مسلم)

"بلاشبہ یہ اس لیے نہیں ہے کہ تیرے گھر والوں ،یعنی تیرے شوہر کے ہاں تیری عزت کمترہے۔اگر تو چاہے تو میں تیرےپاس سات دن گزاروں لیکن اگر میں تیرے پاس سات دن ٹھہروں گا تو اپنی دوسری بیویوں کے پاس بھی پھر میں سات ہی دن ٹھہروں گا۔"

جس شخص نے کنواری یا بیوہ عورت سے شادی کی ہے اس کے لیے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے پیچھے رہنا ،اس وجہ سے کہ اس نے شادی کی ہے،ہرگز جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ دونوں حدیثوں میں ایسی کوئی بات ہے جو اس کی دلیل بنتی ہو۔(سعودی فتویٰ کمیٹی)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(4915)(صحیح مسلم رقم الحدیث(1461)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 453

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ