سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(510) کیا مرد کے لیے دوسری شادی کرنے سے قبل پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟

  • 19358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 981

سوال

(510) کیا مرد کے لیے دوسری شادی کرنے سے قبل پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا خاوند اولاد پیدا کرنے کی غرض سے کسی دوسری عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر میں اس سے انکار کرتی ہوں اور میرا انکار صرف غیرت کی وجہ سے ہے ۔کیا مجھے طلاق لینے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق ہے؟واضح ہوکہ خاوند کے لیے پہلی بیوی کو دوسری شادی پر  راضی کیے بغیر دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آدمی کے لیے اپنی بیوی سے اجازت لیے بغیر ایک سے زیادہ چار تک شادیاں کرنا جائز ہے،اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کا موافقت کرنا شرط نہیں ہے۔اس عورت پر لازم ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی بہت زیادہ تعریفات کیا کرے،اوراگر اس کا خاوند اس کو چھوڑ دے تو اس کی آسانی سے دوبارہ شادی بھی نہیں ہوسکے گی،لہذا ہر عورت کو یہ جان لینا چاہیے کہ اس کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی غیرت کا مسئلہ بنائے کہ اس کی غیرت اس کو حرام اور باطل کام میں ملوث کردے،اور یہ باطل،حرام بلکہ کبیرہ گناہوں سے ہے کہ عورت بلاوجہ اور بلا سبب اپنے خاوند سے طلاق کامطالبہ کرے۔

اور وہ اسباب جن کی وجہ سے طلاق کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے وہ مشہور ہیں،مثلاً شوہر کا بیوی کے نان ونفقہ سے عاجز آجانا،خاوند کو ایسےجنون کا لاحق ہوجانا جس کی وجہ سے عورت کو اپنی جان کا خطرہ ہو،یا اس کو ایسی  مرض کا لگ جانا جس سے عورت خوفزدہ ہو،اور اس طرح کے دیگر اسباب کی وجہ سے وہ طلاق طلب کرسکتی ہے۔

یہ وہ عیوب ہیں جن کو علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے پس اگر عورت نے ان اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کیا ہے تو یہ اس کے لیے جائز ہے ،لیکن اگر وہ اپنے خاوند سے اس وجہ سے طلاق کا سوال کرے کہ وہ اس  پر ایک اور عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ اس کو صرف اس کی غیرت اس مطالبے پر برانگیخت کرتی ہے تو میں اس کو اس صحیح حدیث کے ساتھ نصیحت کروں گا جس کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ   اور اصحاب سنن نے بیان کیا ہے ۔ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ   سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّة"[1]

"جونسی عورت بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔"

 اس کے ساتھ میں تمہارے علم میں یہ بات بھی لانا  چاہتا ہوں کہ اگر تم بغیر سبب کے طلاق طلب کروگی تو مسلمان قاضی تمھیں ہرگز طلاق نہیں دے گا کیونکہ طلاق دینا قاضی کے اختیار میں نہیں ہے،طلاق کا فیصلہ کرنے والا رب عزوجل ہے ،لہذا اگر ہزار قاضی بھی بغیر سبب کے طلاق دے دیں تو تمھیں معلوم ہونا چاہیےکہ طلاق واقع نہیں ہوگی،اورا  گرتم شادی کرو گی تو تمہارا نکاح باطل ہوگا اور تو زنا میں ڈوبی ہوئی زندگی بسر کرو گی۔

اس مسئلہ میں یہی بنیادی نقطہ ہے جو شخص اللہ کی شریعت سے اعراض کرکے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کا سہارا لے گا تواللہ اس کو دنیا میں ضرور ذلیل کرےگا اور آخرت میں اس کو  عذاب سے دوچار کر ے گا۔الا یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے خلاف چاہیں،پس(اے بہن!بیٹی!) اس  حرکت سے بچ جاؤ،یہ فتنہ ہے۔(محمد بن عبدالمقصود)


[1] ۔صحیح سنن ابی داود رقم الحدیث(2226)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 451

محدث فتویٰ

تبصرے