السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا انگریز رجسٹرار کے ذریعے ایک مسلمان اور ایک کتابی کی گواہی سے منعقد ہونے والی شادی اسلام کی نظر میں شرعی شادی ہوگی؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مسلمان مرد کا مسلمان عورت سے نکاح ولی اور دو عادل گواہوں سے منعقد ہوتا ہے اس کے بغیر درست نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
(لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ وَشَاهِدَيْ عَدْلٍ)[1]
"نکاح تو صرف ولی اور دوعادل گواہوں سے ہی منعقد ہوتا ہے۔(اس کو داقطنی نے روایت کیا ہے)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الْبَغَايَا اللَّاتِي يُنْكِحْنَ أَنْفُسَهُنَّ بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ"[2]
"جو عورتیں بغیر گواہ کے اپنا نکاح منعقد کرتی ہیں وہ زانیہ شمار ہوں گی۔"
اور اس وجہ سے بھی کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک نکاح کا مقدمہ پیش ہوا جو نکاح ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی سے منعقد کیا گیا تھا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
"یہ مخفی نکاح ہے اگر میں اس معاملے میں پیش رفت کرتا تو رجم کردیتا۔"[3]
نیز ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے"لا نكاح إلا ببينة"[4](بغیر گواہ کے نکاح منعقد نہیں ہوتا)
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نکاح میں ولی اور گواہوں کے معتبر ہونے پر کئی احادیث پیش کرنے کے بعد فرمایا:
"اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ان کے بعد تابعین رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا اسی پر عمل رہا ہے چنانچہ انھوں نے فرمایا:نکاح تو صرف گواہوں سے منعقد ہوتا ہے۔"
نکاح میں ولی اور گواہوں کے معتبر ہونے کے مذکورہ مسئلے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ یہ مسئلہ شریعت کے مقاصد سے موافقت کرتا ہے کیونکہ اس سے عزتوں اور نسبوں کی حفاظت ہوتی ہے زنا اور فساد کا راستہ بند ہوتا ہے اور ممکنہ ازدواجی اختلافات کا قلع قمع ہوتا ہے۔
رہا مسلمان مرد کا کتابیہ عورت سے شادی کرنا تو شافعی اہل علم کے اقوال میں سے صحیح قول کے مطابق یہ نکاح بھی دو عادل گواہوں کے بغیر درست نہیں ہوتا۔ اور علمی اعتبار سے اس کے دلائل وہ احادیث اور آثار ہیں جن کو ابھی ذکر کیا گیا ہے اور اس اعتبار سے بھی کہ اس سے شریعت کے قواعد و مقاصد کی موافقت ہوتی ہے۔ (سعودی فتویٰ کمیٹی)
[1] ۔صحیح سنن الدارقطنی (225/3)
[2] ۔ضعیف سنن الترمذی رقم الحدیث (1103)
[3] ۔ضعیف موطا امام مالک رقم الحدیث(1114)
[4] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث(1104)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب