السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب عورت جانتے ہوئے یا لاعلمی میں اپنی سوکن کی طلاق کی شرط لگائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل کا یہ کہنا: جب عورت اپنی سوکن کی طلاق کی شرط لگائے تو یہ شرط صحیح ہے یہ ابو الخطاب کا قول ہے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ شرط صحیح نہیں یہ تقی الدین کا مختار مذہب ہے یہی صحیح مؤقف ہے کہ عورت کو یہ شرط لگانا جائز نہیں ہے اگر وہ یہ شرط لگائے تو یہ شرط لغو ہوگی کیونکہ حدیث میں ہے۔
«كُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَهُوَ بَاطِلٌ،[1]
"ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہ ہووہ باطل ہے۔"
ایک دوسری حدیث میں ہے۔
"لا تسأل المرأة طلاق أختها لتستفرغ صحفتها" [2]
"عورت اپنی مسلمان بہن کے برتن سے اپنے برتن میں انڈیلنےکے لیے اس کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے۔
پس جب عورت نے مرد پر شرط لگادی اور مرد اس پر صبر کرتے ہوئے خاموش رہا اور اس عورت کی شادی اس مرد کے ساتھ بس اسی شرط پر کی گئی اور اگر اس کو علم ہو کہ بلاشبہ وہ جب شادی پر راضی ہو گی تو اس کے پاس باقی رہے گی اور وہ اس کی حرمت سے بھی آگاہ ہے تو اس کی یہ شرط لغو ہے پس بلاشبہ عورت اس جگہ جب علم رکھے اور نافرمانی کرے تو اس کو سزا کے طور پر کچھ نہ دیا جائے اور اگر وہ ناواقف ہوتو وہ نکاح فسخ کرنے کی مالک ہوگی کیونکہ مرد نے اس کو وہ کچھ نہیں دیا۔ جس پر عورت نے اس سے عقد کیا تھا۔(محمد بن ابراہیم)
[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث(3451)
[2] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث(1408)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب