السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ پورے دو سال گزارے،پھر اس کو علم ہوا کہ ان دونوں میاں بیوی نے محلے کی ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہے،یا زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ ان کی پڑوسن ہے تو کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہوگی یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں یہ بات مقرر ہے کہ بلاشبہ رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة"[1]
"رضاعت ان رشتوں کو حرام کرتی ہے جن کو ولادت(نسبی ر شتے داری) حرام کرتی ہے۔"
اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "[2]
"رضاعت سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔"
الله جل وعلا فرماتے ہیں:
﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم﴾
"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔"
جب اللہ تعالیٰ نے محرمات کا ذکر کیا تو فرمایا:
"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو۔"
﴿وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَوٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں۔"
کیا دو شرطوں کے ساتھ: ایک یہ کہ رضاعت پانچ معلوم رضعات سے مکمل ہو،اور دوسری یہ کہ رضاعت بچے کی عمر کے دو سال کے اندر ہو۔رضاعت محرمہ میں جاری ہونے والا یہی وہ قاعدہ ہے۔
رہا تمہارا خاص مسئلہ اور جو تم نے ذکر کیا ہے کہ تم نے ایک ایسی عورت سے شادی کی ہے کہ تم نے اور تمہاری اس بیوی نے ایک عورت کادودھ پیا ہے،اور تم نے اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کے دو سال بسر کیے ہیں تو اس مسئلہ میں تم کو شرعی قاضی یا اپنے علاقے کے معتمد مفتی کی طرف جانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کو مسئلے کی حقیقت معلوم ہوسکے،پھر اس کے بعد وہ تمھیں شرعی حکم سے خبردار کریں گے۔ان شاء اللہ۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2938)
[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2502) صحیح مسلم رقم الحدیث(1447)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب