سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(484) محارم

  • 19332
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1186

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ إِنَّهُ كانَ فـٰحِشَةً وَمَقتًا وَساءَ سَبيلًا ﴿٢٢ حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَبـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِكُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ إِلّا ما قَد سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا ﴿٢٣﴾... سورةالنساء

"اور ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے مگر جو گزر چکا ہے، یہ بے حیائی کا کام اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری راه ہے (22) حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے"

اس آیت کا کیا مطلب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان آیات کریمات میں اللہ عزوجل نے ان رشتوں کو بیان کیاہے جن سے نکاح کرنا حرام ہے ،اور ان آیات میں حرمت کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں:

1۔نسب۔2۔رضاعت۔3۔سسرال۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ ...﴿٢٢﴾... سورةالنساء

"اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں مگر جو پہلے گزر چکا۔"

یہ فائدہ دیتاہے کہ بلاشبہ کسی انسان کو اس عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے جس سے اس کے باپ یا اس کے دادا یا اوپر تک کسی نے شادی کی ہو،خواہ وہ"جد"ماں کی طرف سے ہو،یعنی نانا،خواہ باپ کی طرف سے ہو،یعنی دادا،خواہ انھوں نے اس عورت سے دخول کیا ہو یا نہ کیاہو،جب آدمی اپنی بیوی سے صحیح عقد نکاح کرلیتاہے تو اس کی بیوی اس کے بیٹوں،پوتوں،نواسوں اور نیچے تک کےلڑکوں پرحرام ہوجاتی ہے۔

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء

"حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں ،خالائیں،اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔"

اس آیت  میں ان رشتوں کا بیان ہے جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں،اور وہ سات ہیں:

1۔مائیں اوپر تک،یعنی باپ کی طرف سے دادیاں اور ماں کی طرف سے نانیاں۔

2۔اور بیٹیاں نیچے تک،یعنی پوتیاں،نواسیاں اور نیچے تک کی لڑکیاں۔

3۔اور بہنیں ،خواہ وہ حقیقی ہوں یاعلاقی یا اخیافی،اورپھوپھیاں ،یعنی باپوں اور دادوں اوپر تک کی بہنیں ،خواہ وہ حقیقی پھوپھیاں ہوں یاعلاتی یااخیافی۔

3۔حقیقی  پھوپھیاں :وہ ہیں جو تمہارے باپ کی حقیقی اور سگی بہنیں ہیں،اور علاتی پھوپھیاں وہ ہیں جو تمہارے باپ کی علاتی بہنیں ہیں،اور اخیافی پھوپھیاں وہ ہیں جو تمہارے باپ کی اخیافی بہنیں ہیں۔

5۔خالائیں:وہ ماں،دادی،نانی اور اوپر تک کی بہنیں ہیں ،خواہ وہ حقیقی اور سگی ہوں،خواہ علاتی یا اخیافی،پس حقیقی خالائیں وہ ہیں جو تمہاری ماں کی حقیقی بہنیں ہیں،اور علاتی خالائیں وہ ہیں جو تمہاری ماں کی علاتی بہنیں ہیں،اور اخیافی خالائیں وہ ہیں جو تمہاری ماں کی اخیافی بہنیں ہیں۔

جان لیجئے کہ ہر وہ خالہ اور پھوپھی جو کسی شخص کی خالہ اور پھوپھی ہے وہ اس کے فروع کی بھی خالہ ہوگی،اور اس کی پھوپھی اس کے فروع کی بھی  پھوپھی ہوگی،لہذا تمہارے باپ کی  پھوپھی تمہاری بھی پھوپھی ہے۔اورتمہارے باپ کی خالہ تمہاری بھی خالہ ہے۔اسی طرح تمہاری ماں کی پھوپھی تمہاری بھی پھوپھی ہے اورتمہاری ماں کی خالہ تمہاری بھی خالہ ہے۔اسی طرح تمہارے دادوں ،نانوں اور دادیوں،نانیوں کی پھوپھیاں تمہاری بھی پھوپھیاں ہوں گی،اور تمہارے دادوں،نانوں اور دادیوں ،نانیوں کی خالائیں تمہاری بھی خالائیں ہوں گی۔

6۔اور بھائی کی بیٹیاں نیچے تک،خواہ وہ بھائی حقیقی ہو،علاتی یا اخیافی،لہذا تمہارے حقیقی بھائی،علاتی بھائی یا اخیافی بھائی کی بیٹی تم پر حرام ہوگی،اور بھائی کی بیٹی کی نواسی بھی تم پر حرام ہے،اور بھائی کی بیٹی کی پوتی بھی تم پر حرام ہے۔

1۔اور ایسے ہی ہم بہن کی بیٹیوں کے متعلق کہیں گے۔

یہ کل سات رشتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں:

﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ﴾

"حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں ،خالائیں،اور بھتیجیاں اور بھانجیاں۔"

اگر آپ چاہیں تو ان رشتوں کو یوں بھی شمار کرسکتے ہیں، انسان پر جو عورتیں حرام ہیں وہ یہ ہیں:اصول اوپر تک ،فروع نیچے تک،باپ اور ماں کے فروع نیچے تک،اور دادا،نانا،اور دادی،نانی کے  وہ  فروع خاص طور پر جو صلبی ہوں۔

اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

﴿وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ﴾

"اور تمہاری وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں۔"

ان رشتوں کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جو رضاعت کی وجہ سے حرام ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

" يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "[1]

"رضاعت سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔"

اور الله تعالیٰ کے اس فرمان میں:

﴿ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَبـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِكُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم ... ﴿٢٣﴾... سورةالنساء

"تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں"

تین رشتے سسرال کی وجہ سے حرام ہیں،پس اللہ تعالیٰ کاارشادوَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ  یعنی مرد پر اپنی بیوی کی ماں اور اوپر تک حرام ہے،خواہ وہ ماں کی طرف سےہو،یعنی نانی اور خواہ باپ کی طرف سے ہو، یعنی دادی،اور بیوی کی ماں صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتی ہے۔(مجامعت کا ہونا ضروری نہیں۔)

لہذا جب آدمی اپنی بیوی سے عقد نکاح باندھ لے  گا تو اس کی ماں اس پر حرام ہوجائے گی اور مرد کے محارم میں شامل ہوجائے گی اگرچہ اپنی بیوی سے دخول ومجامعت نہ کی ہو،یعنی اگرچہ اس نے(اس عورت کی)بیٹی(اپنی بیوی) سے مجامعت نہ بھی کی ہو،پھر بالفرض اس کی بیوی فوت ہوجائے یا وہ اس کو طلاق دے دے تو وہ اس کی ماں کےلیے محرم ہوگا اگرچہ اس کا اپنی اس بیوی سے دخول موخر ہوجائے جس سے کہ اس نے شادی کی ہے۔وہ اپنی بیوی کی ماں کے لیے محرم ہی ہوگا،اس کی ساس اس کے سامنے اپنا چہرہ کھول سکتی ہے،اس کے ساتھ سفر کرسکتی ہے اور اس کے ساتھ خلوت میں بیٹھ سکتی ہے۔ان مذکورہ کاموں میں اس پر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ بیوی کی ماں،دادی اور نانی محض عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتی ہیں،اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمومی ارشاد ہے:

وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ  "اورتمہاری بیویوں کی مائیں۔"

اور عورت صرف عقد نکاح کرلینے سے ہی اس کی بیوی میں شامل ہوجائے گی۔

اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ﴾

"اور تمہاری پالی ہوئی لڑکیاں جو تمہاری گود میں تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو۔"

سے بیوی کی بیٹیاں ،پوتیاں اور نیچے تک لڑکیاں مراد ہیں،پس جب آدمی  کسی عورت سے شادی کرے تو یقیناً اس کے دوسرے خاوند سے اس کی بیٹیاں اس پر حرام ہوجاتی ہیں اور وہ اس کی محرم بن جاتی ہیں،اسی طرح اس کی مذکر اور مونث اولاد کی بیٹیاں،یعنی پوتیاں اور نواسیاں۔اس عورت کی پوتی اور نواسی اس کی بیٹی کی طرح ہی ہے لیکن اس جگہ اللہ تعالیٰ نے دو  شرطیں عائد کی ہیں:

﴿"وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ﴾

"اور تمہاری پالی ہوئی لڑکیاں جو تمہاری گود میں تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو۔"

پس اللہ نے ربیبہ(بیوی کی کسی اور خاوند سے بیٹی) کی حرمت کے لیے شرط لگائی ہے کہ وہ اس آدمی کی گود میں پرورش پائے اور دوسری شرط یہ لگائی ہے کہ اس کی ماں سے دخول یعنی مجامعت کرلے۔

جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو جمہور اہل علم کے نزدیک وہ اغلبی شرط ہے،اس کا مفہوم مخالف مراد نہیں ہوگا ،اسی لیے انھوں نے کہا:بلاشبہ اس بیوی،جس بیوی سے دخول ہوا ہے،کی بیٹی اس کے خاوند پر حرام ہوگی  اگرچہ اس نے اس خاوند کی گود میں پرورش نہ بھی پائی ہو۔رہی دوسری شرط اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:

﴿ اللَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ ﴾

"جن سے تم  صحبت کرچکے ہو۔"

یہ مقصودی شرط ہے ،اسی لیے اللہ نے اس کامفہوم مخالف ذکر کیا ہے ،اور اپنے اس ارشاد اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم کامفہوم مخالف بیان نہیں کیا اور اس کا مفہوم مخالف معتبر نہیں ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کایہ فرمان: " اللَّتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ "(النساء:23) بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مفہوم مخالف کااعتبار کرتے ہوئے فرمایا:

﴿فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾

"پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"

اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ" سے مراد یہ ہے کہ بیٹے اور نیچے تک کے لڑکوں کی بیوی اپنے باپ پر محض عقد نکاح سے حرام ہوجاتی ہے اور پوتے کی بیوی محض نکاح کرنے سے ہی دادے پر حرام ہوجاتی ہے۔لہذا اگر کسی شخص نے ایک عورت کے ساتھ صحیح عقد کیا،پھر فوراً ہی اسے طلاق دے دی تو وہ اس شخص کے باپ ،دادے اور اوپر تک کے لیے محرمہ بن جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کاعمومی فرمان ہے:

﴿وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ﴾

"اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں۔"

عورت محض عقد نکاح سے ہی اپنے خاوند کی بیوی بن جاتی ہے۔پس مذکورہ تین اسباب حرمت کو واجب کرتے ہیں:نسب،رضاعت اور سسرال۔نسبی محرمات سات ہیں اور رضاعی محرمات بھی نسبی محرمات کی طرح سات ہی ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے:

" يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "[2]

"رضاعت سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔"

اور سسرالی محرمات چار ہیں،اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

"وَلَا تَنكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاءِ"میں اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: "وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ"میں بیان ہوئے ہیں۔

اور چوتھا سسرالی رشتہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے:

"وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ"یہ دائمی طور پر حرام نہیں ہے۔بلکہ صرف ان دونوں کو جمع کرنا حرام ہے۔بیوی کی بہن،یعنی سالی خاوند پر حرام نہیں ہے لیکن حرام یہ ہے کہ بیوی اور اس کی بہن کو بیک وقت نکاح میں جمع کیا جائے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے:

"وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ"یہ نہیں کہا کہ تمہاری بیویوں کی بہنیں حرام ہیں۔

پس جب آدمی اپنی بیوی کو طلاق بائنہ کے ذریعے چھوڑ دے اور اس کی عدت بھی پوری ہوجائے تو وہ اس کی بہن سے شادی کرسکتاہے کیونکہ ان دونوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔جس طرح دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا حرام ہے ،جیسا کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   سے ثابت ہے کہ"جن دو عورتوں کو نکاح  میں جمع کرنا حرام ہے وہ تین ہیں:دو بہنیں ،عورت اور اس کی پھوپھی ،عورت اور اس کی خالہ۔"

رہی چچا اور ماموں کی بیٹیاں،یعنی عورت اور دوسرے چچا کی بیٹی یا دوسرے ماموں کی بیٹی تو ان کو نکاح میں جمع کرنا جائز ہے۔(فضیلۃا لشیخ محمد بن صالح العثمین  رحمۃ اللہ علیہ  )


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2502) صحیح مسلم رقم الحدیث(1447)

[2] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2502) صحیح مسلم رقم الحدیث(1447)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 426

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ