السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے با پ نے ایک ایسی عورت سے شادی کی جس کے ساتھ ایک بچی ہے جو اس عورت کا دودھ پیتی ہے پھر اس نے میرے باپ سے شادی کرنے کے بعد اس کا دودھ چھڑادیا۔جب یہ بچی بڑی ہوگئی تو میرے باپ نے اس سے میری شادی کرنے کا ارادہ کیا تو کیا یہ جائز ہے؟اور کیا مرد کو اپنی ساس سے اس کی بیٹی کو طلاق دینے کے بعد مصافحہ کرناجائز ہے کہ اس سے اس مرد کی اولاد بھی نہ ہوئی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس کے لیے باپ کی پروردہ سے شادی کرنا جائز ہے کیونکہ وہ اس کے باپ کی پروردہ ہے اور بیٹے کے لیے باپ کی پروردہ سے شادی کرنا جائز ہے یہاں پر قاعدہ یہ ہے کہ سسرالی رشتہ داروں سے بیوی کے اصول اور فروع شوہر پر حرام ہیں،دوسرے رشتہ داروں پر نہیں۔اور خاوند کے اصول اور فروع بیوی پر حرام ہیں ،اس کے رشتہ داروں پر نہیں،لیکن ان میں سے تین رشتے صرف عقد نکاح سے ہی حرام ہوجاتے ہیں،اور ان کی حرمت کے لیے دخول ضروری ہے:
1۔خاوند کے اصول بیوی پر صرف عقد کے ذریعے حرام ہے۔
2۔خاوند کے فروع بیوی پر صرف عقد کے ذریعے حرام ہیں۔
3۔بیوی کے اصول خاوند پر صرف عقد کے ذریعے حرام ہیں۔
بیوی کے فروع خاوند پر دخول کے بعد حرام ہیں۔
اور بیوی کے اصول:اس کی ماں،دادی،نانی اور جو اوپر تک ہیں۔
اور بیوی کے فروع:اس کی بیٹی،اوولاد کی بیٹی،پوتی،نواسی اور نیچے تک کی لڑکیاں ہیں۔
اور خاوند کے اصول:اس کا باپ ،دادا،نانا اور جو اوپر تک ہیں۔
اور خاوند کے فروع:اس کا بیٹا،اولاد کا بیٹا،پوتا،نواسا اور نیچے تک لڑکے ہیں۔
اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے ہم کچھ مثالیں عرض کرتے ہیں:
مثلاً اگر ایک آدمی زینب نامی ایک عورت سے شادی کرے،اس عورت کی ماں کا نام اسماء ہے تو اسماء اس آدمی پر زینب سے نکاح کرے سے حرام ہوجائے گی کیونکہ زینب اس کے اصول میں سے ہے۔
پس اگر زینب نے شادی کی۔اس کی ایک بیٹی بھی ہے جس کا نام فاطمہ ہے تو فاطمہ مردپر اس وقت حرام ہوگی جب وہ اس کی ماں سے دخول کرے گا،یعنی جب اس کی ماں سے مجامعت کرے گا۔ اوراگر وہ فاطمہ کی ماں کو مجامعت کرنے سے پہلے طلاق دے دے تو اس کے لیے فاطمہ سے شادی حلال ہوگی،لیکن اسماء(ساس) سے شادی حلال نہیں ہوگی۔
اگر خاوند کا باپ ہو،جس کا نام عبداللہ ہے،اور اس کے باپ کا ایک بیٹا ہے جس کا نام عبدالرحمان ہے،پس عبداللہ بیوی زینب پر صرف عقد کے ذریعہ حرام ہوگا اوراسی طرح عبدالرحمان بیوی زینب پر محض عقد سے حرام ہوگا،اورعبدالرحمان کے لیے زینب کی بیٹی فاطمہ سے شادی جائز ہوگی کیونکہ خاوند کے اصول وفروع صرف بیوی پر حرام ہیں،اس کے رشتہ داروں پر حرام نہیں ہیں۔
اور عبداللہ کے لیے،جو کہ خاوند کا باپ ہے ،اسماء سے شادی کرنا جائز ہے جو کہ بیوی کی ماں ہے۔اس کےدلائل درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلا تَنكِحوا ما نَكَحَ ءاباؤُكُم مِنَ النِّساءِ إِلّا ما قَد سَلَفَ...﴿٢٢﴾... سورةالنساء
" اور ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ نکاح کرچکے ہوں مگر جو پہلے گزر چکا۔"
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خاوند کے فروع بیوی پر حرام ہیں۔
نیزاللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
﴿وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم﴾
"اور تمہاری بیویوں کی مائیں۔"
بیوی کے اصول کو خاوند پر حرام کرتاہے۔
اور اللہ تعالیٰ کافرمان:
﴿وَرَبـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِكُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"اور تمہاری پالی ہوئی لڑکیاں جو تمہاری گود میں تمہاری ان عورتوں سے ہیں جن سے تم صحبت کرچکے ہو،پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہوتو تم پر کوئی گناہ نہیں۔"
سے بیوی کے فروع خاوند پرحرام ٹھہرتے ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم ...﴿٢٣﴾... سورةالنساء
"اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری پشتوں سے ہیں۔"
خاوند کے اصول کو بیوی پر حرام کرتاہے۔
اور جائز ہے کہ ایک شخص کسی عورت سے شادی کرے اور اس شخص کا باپ اس عورت کی بیٹی سے شادی کرے کیونکہ بیوی کے فروع خاوند پر حرام ہیں ،اس کے رشتہ داروں پر حرام نہیں ہیں،نیز یہ جائز ہے کہ ایک آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس آدمی کاباپ اس عورت کی ماں سے شادی کرے۔
آدمی کے لیے اپنی محرم عورتوں کے علاوہ کسی سے مصافحہ کرناجائز نہیں ہے،نہ بغیر پردے کے اور نہ ہی پردے کے ساتھ۔بہت سے لوگ محض قرابت داری کی وجہ سے اگرچہ عورت اس کے محرم رشتوں میں سے نہ ہو،بلاجھجک مصافحہ کرلیتے ہیں یہ جائز نہیں ہے اور محارم وہ عورتیں ہیں جو نسب یاکسی مباح سبب کی وجہ سے دائمی طور پر حرام ہوتی ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب