سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(476) دورضاعی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کا حکم

  • 19324
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 911

سوال

(476) دورضاعی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کسی آدمی کے نکاح میں ایک بیوی ہو پھر وہ اس کی رضاعی بہن سے شادی کر لے اس حال میں کہ پہلی بیوی طلاق کی عدت گزاررہی ہے کیا یہ عقد صحیح ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب رضاعت ثابت ہوگئی اور ہو بھی وہ دو سالوں کے اندر اندر اور پانچ مرتبہ دودھ پی کر تو مذکوہ عقد صحیح نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا عمومی ارشاد ہے۔

﴿حُرِّمَت عَلَيكُم أُمَّهـٰتُكُم وَبَناتُكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم وَعَمّـٰتُكُم وَخـٰلـٰتُكُم وَبَناتُ الأَخِ وَبَناتُ الأُختِ وَأُمَّهـٰتُكُمُ الّـٰتى أَرضَعنَكُم وَأَخَو‌ٰتُكُم مِنَ الرَّضـٰعَةِ وَأُمَّهـٰتُ نِسائِكُم وَرَبـٰئِبُكُمُ الّـٰتى فى حُجورِكُم مِن نِسائِكُمُ الّـٰتى دَخَلتُم بِهِنَّ فَإِن لَم تَكونوا دَخَلتُم بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيكُم وَحَلـٰئِلُ أَبنائِكُمُ الَّذينَ مِن أَصلـٰبِكُم وَأَن تَجمَعوا بَينَ الأُختَينِ إِلّا ما قَد سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفورًا رَحيمًا ﴿٢٣﴾... سورة النساء

"حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور تمہاری لڑکیاں اور تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھائی کی لڑکیاں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہاری وه مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وه پرورش کرده لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں، تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کر چکے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناه نہیں اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا سو گزر چکا، یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے"

نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان ہے:

" يَحْرُمُ مِنْ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنْ النَّسَبِ "[1]

"رضاعت سے اتنے ہی رشتے حرام ہوتے ہیں جتنے رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔"

جب مطلقہ اپنی عدت سے فارغ ہوجائے اور یہ آدمی اس کی رضاعی بہن سے شادی کرنے کا ارادہ رکھے تو وہ بھی دوسرے نکاح کا پیغام بھیجنے والوں میں سے ایک ہوگا۔(محمد بن ابراہیم)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث(2502) صحیح مسلم رقم الحدیث(1447)

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

عورتوں کےلیے صرف

صفحہ نمبر 413

محدث فتویٰ

تبصرے