السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قریبی رشتہ داروں میں سے ایک نے مجھے سے نکاح کی رغبت ظاہر کی لیکن میں نے سنا ہے کہ دور کے لوگوں سے شادی کرنا بچوں کے مستقبل وغیرہ کے اعتبار سے افضل و بہتر ہے آپ کی اس مسئلہ میں کیا رائے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض اہل علم نے اس قاعدے کا ذکر کیا ہے اور مذکورہ بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرابت کا اثر ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کی عادات اور تخلیق میں قرابت کا اثر ہوتا ہے جیسا کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میری بیوی نے ایک سیاہ لڑکے کو جنم دیا ہے وہ اس بات کے ساتھ عورت پر تنقید کررہا تھا کہ جب والدین سفید رنگ کے ہوں تو بچہ سیاہ کیسے ہو سکتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: هل لك من إبل ؟"کیا تیرے پاس اونٹ ہیں؟"اس آدمی نے کہا:جی ہاں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا " فَمَا أَلْوَانُهَا ؟ "
"ان کے رنگ کیا ہیں؟اس نے جواب دیا: سرخ رنگ کے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت کیاهل فيها من أورق ؟کیا ان میں کچھ نیلے اونٹ بھی ہیں ؟"اس نےکہا:جی ہاں !آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "وہ ان میں کہاں سے آگئے؟"اس نے کہا:شاید انھوں نے(اوپر سے) کوئی رگ کھینچ لی ہو تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فلعل ابنك هذا نزعه عرق) "[1]
"تیرے اس بیٹے کو بھی (اوپر سے) کسی رگ نے کھینچ لیا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ وراثت کا اثر ہوتا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَلِجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ " [2]
"عورت سے چار چیزوں کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے اس کے مال حسب و نسب جمال و خوبصورتی اور اس کی دینداری کی وجہ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں پس تو دیندار عورت سے(شادی کرکے) کامیابی حاصل کر۔"
پس جب عورت کو نکاح کا پیغام دینے کی بنیاد دینداری ٹھہری تو جو عورت دیندار ہوگی اور خوبصورت ہوگی وہ زیادہ بہتر ہوگی خواہ وہ قریبی ہو یا دور کی ہو کیونکہ دیندارخاتون اس کے مال اولاد اور گھر کی حفاظت کرے گی اور مرد کی حاجت پوری کرتے ہوئے اس کی نگاہ کو پست رکھے گی اور اس کا خاوند اس کے ہوتے ہوئے دائیں بائیں تانک جھانک نہیں کرے گا۔(فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (4999)صحیح مسلم رقم الحدیث (1500)
[2] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث (4802)صحیح مسلم رقم الحدیث (1466)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب