السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے ایک عورت سے شادی کی اور ایک سال کے لیے اس کو چھوڑ کر سفر پر چلا گیا اور اپنی بیوی کے پاس کوئی چیز نہ چھوڑی اور نہ ہی اس عورت کے پاس کوئی چیز ہے جس کو وہ اپنے پر خرچ کر سکے۔ وہ بھوک سے ہلاک ہونے والی تھی کہ اس کو کسی نے نکاح کا پیغام دیا اور شادی کرلی اس سے مجامعت کی اور یہ اس سے حاملہ ہو گئی حاکم کو معلوم ہوا کہ ابھی پہلا خاوند موجود ہے تو اس نے ان دونوں کی جدائی کروادی اس نے دوسرے خاوند سے بچہ جنم دیا دوسرا خاوند اس پر مال خرچ کرتا رہا حتی کہ بچے کی عمر چار سال ہوگئی مگر ابھی تک پہلا خاوند نہ آیا اور نہ ہی اس کے متعلق یہ معلوم ہو سکا کہ وہ کہا ں ہے؟کیا اس عورت کو دوسرے خاوند کے ساتھ رجوع کر لینا جائز ہے یا کہ وہ پہلے خاوند کا انتطار کرتی رہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب اس کی طرف سے خرچ بند ہو گیا تو ہمیں اس نکاح کو فسخ کردینا چاہیے ۔جب اس کی عدت مکمل ہو جائے تو وہ اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کر لے۔ نکاح فسخ کرنا حاکم کا کا م ہے مگر جب وہ حاکم وغیرہ کے نکاح فسخ نہ کرنے کی وجہ سے خود نکاح فسخ کر لے تو اس میں جھگڑا ہے لیکن جب حاکم نے نکاح فسخ نہیں کیا بلکہ بیوی کے سامنے یہ گواہی دی گئی کہ اس کا خاوند فوت ہو چکا ہے اور اس نے اس وجہ سے شادی کر لی۔ جبکہ اس کا خاوند فوت نہیں ہوا تھا تو نکاح باطل ہو گا لیکن جب دوسرا خاوند پہلے خاوند کی موت اور فسخ نکاح وغیرہ کا گمان کرتے ہوئے اس نکاح کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھے تو بچے کو اس کی طرف منسوب کیا جائے گا اس کے ذمے مہر ہوگا اور اس پر کوئی حد نہ ہو گی لیکن وہ عدت گزارے گی یہاں تک کہ اس خاوند سے اس کی عدت ختم ہو جائے پھر پہلا نکاح اگر ممکن ہو تو فسخ ہو گا اور وہ جس سے چاہے شادی کرے گی(ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ )
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب