السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تحدید نسل کا کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ مسئلہ دور حاضر کا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس کے متعلق بہت سے سوال پوچھے جا رہے ہیں گزشتہ اجلاس میں مجلس ہیئت کبارعلماء نے اس پر گہرا غور و فکر کیا اور وہ قرارداد جو انھوں نے اس مسئلہ پر مناسب سمجھ کر پیش کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ مانع حمل گولیاں استعمال کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ عزوجل علانے اپنے اپنے بندوں کے لیے افزائش نسل اور تکثیرامت کے اسباب کو مشروع قراردیا ہے اور یقیناً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا:
"محبت کرنے والی اور زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو پس میں تمھاری کثرت کی وجہ سے قیامت کے دن دوسری امتوں پر فخرکروں گا۔
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔"قیامت کے دن انبیاء علیہ السلام پر(فخر کروں گا)۔"
"تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ الأُمَمَ يوم القيامة وفي رواية :الانبياء يوم القيامة"[1]
اور اس لیے بھی کہ امت کو اولاد کی کثرت کی بہت ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کی راہ میں جہاد کریں اور اللہ کے حکم اور توفیق کے ساتھ دشمنوں کے مکروفریب سے ان کی حفاظت کریں لہٰذا واجب یہ ہے کہ مانع حمل چیزوں کو ترک کیا جائے اور ان کے استعمال کی اجازت نہ طلب کی جائے الایہ کہ کوئی انتہائی ضرورت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے مثلاً عورت کے رحم وغیرہ میں ایسی مرض ہو جس کی وجہ سے حمل نقصان دہ ثابت ہو تو ضرورت کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں ہے ایسے ہی جب عورت کے پہ درپہ بچے ہوتے رہے ہوں اور اب اس کے لیے حمل تکلیف دہ ثابت ہو تو حمل کو عارضی طور پر رضاعت کی مدت میں ایک یا دو سال مؤخر کرنے کے لیے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تاکہ اس پر آسانی ہو جائے اور وہ بچوں کو مرضی کے مطابق مناسب تربیت دے سکے مگر جب مانع حمل گولیاں نوکری کے لیے فراغت کی غرض سے یاآرام دہ زندگی گزارنے کی غرض سے یا اس جیسی دیگر غیر ضروری اغراض جو عورتوں نے اختیار کر لی ہیں کے لیے ہو تو ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے(ابن باز رحمۃ اللہ علیہ )
[1] ۔صحیح سنن النسائی رقم الحدیث (3227)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب